بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں کا احتجاجی مظاہرہ
ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے بنگلادیش میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وفد کی رہائش گاہ کے سامنے مظاہرہ کرکے اپنے مسائل کے حل کئے جانے کا مطالبہ کیا-
کاکس بازار کیمپ کے مظاہرین نے سلامتی کونسل کے وفد سے مطالبہ کیا کہ بنگلادیش میں روہنگیا مسلمانوں کے تمام کیمپوں کا معائنہ کیا جائے اور ان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے- روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وفد کے دورے نے پناہ گزینوں کو کیمپوں کی ابتر صورت حال کے سلسلے میں اپنا احتجاج دنیا تک پہنچانے کا مناسب موقع فراہم کردیا ہے- یورپی سمیت مختلف بین الاقوامی اداروں کے نمائندوں اور حکام نے بنگلادیش کا دورہ کر کے دعوی کیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کے لئے اقدام کریں گے تاہم عملی طور پر نہ صرف ان حکام کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا بلکہ سب کچھ صرف گروپ فوٹو اور انسان دوستی کے ڈرامنے پر ختم ہوگیا- روہنگیا مسلمانوں کو اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے وفد کے دورہ بنگلادیش اور پناہ گزیں کیمپوں کے معائنے سے بھی کوئی امید نہیں ہے تاہم انھوں نے مظاہرے کے ذریعے بین الاقوامی اداروں اور انسانی حقوق کے نام نہاد اداروں کی کارکردگی کے خلاف اپنی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ایک انسانی المیہ رونما ہونے کے سلسلے میں خبردار کرنے کی کوشش کی ہے- بنگلادیش میں مانسون کی بارشوں اور روہنگیا کیمپوں میں ضروری چیزوں کے فقدان کے سبب پھیلنے والے وبائی امراض اور ہزاروں افراد کی موت پناہ گزینوں کی تشویش کا باعث ہے-
بنگلادیش کے سیاسی امور کے ماہر محمد منیر حسین خان کا کہنا ہے کہ حکومت بنگلادیش تنہا پناہ گزینوں کے لئے انتظامات کرنے کی توانائی نہیں رکھتی - اس وقت انھیں بین الاقوامی خاص طور سے اسلامی ممالک کی انسانی ہمدردی پرمبنی فوری امداد کی ضرورت ہے - بنگلادیش میں پناہ گزیں مسلمانوں کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے جن میں اکثر یتیم بچے ہیں - اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے توقع ہے کہ وہ میانمار حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ ان کے شہری حقوق تسلیم کرے- کیونکہ پناہ گزیں روہنگیا مسلمان صوبہ راخین اورمیانمار کو اپنا وطن سمجھتے ہیں جہاں انھوں نے سیکڑوں سال سے نسل درنسل زندگی گذاری ہے لیکن میانمار میں انتہاپسند بدھست اور فوجیوں نے ان کی نسل کشی کا بازار گرم کر کے انھیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے-
نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر ساسکیا ساسن کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنا صوبہ راخین اور میانمار کے دیگر علاقوں کے ذخائر پر قبضہ کرنا اور زمینوں کو خالی کرانا ہے - ان کے گھر جلا دینے سے ان کی واپسی ناممکن ہوگئی ہے کیونکہ اس صورت حال میں وہ اپنا گھربار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جس کی بنا پر انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے- بہرحال روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا سامنے آنا اور پناہ گزینوں کی صورت حال کا جائزہ لینا اسی وقت مفید واقع ہوسکتا ہے کہ جب بحران کے حل کی بنیادی کوشش کی جائے کیونکہ تنہا عالمی ادارہ کہ جو حکومت میانمار کو روہنگیا مسلمانوں کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤ ڈال سکتا ہے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے- اس بنا پر بنگلادیش کے کاکس بازار کیمپ کے پناہ گزینوں کا سلامتی کونسل کے وفد کے سامنے احتجاجی مظاہرہ سلامتی کونسل کے وفد کے اراکین کو سخت انتباہ ہے کہ وہ ان کی جان بچانے کے لئے کوئی اقدام کریں اور صرف گروپ فوٹو پر اکتفا نہ کریں -