بیت المقدس میں ٹرمپ کی سازشوں کے خلاف فلسطینیوں کے وسیع مظاہرے
امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف مختلف فلسطینی گروہوں کے مظاہروں میں شدت آنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں-
اس تناظر میں صیہونی پارلیمنٹ کینسٹ میں عرب نمائندوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے دن حق واپسی مارچ اور غزہ محاصرے کی منسوخی کی قومی کمیٹی کی ہماہنگی اور انیس سو اڑتالیس کے مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں کی مشارکت سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں وسیع پیمانے پر مظاہرے کریں گے- انیس سو اڑتالیس کے مقبوضہ علاقوں میں تقریبا پندرہ لاکھ فلسطینی زندگی بسر کررہے ہیں اور صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے وقت بھی انھوں نے اپنا گھر بار نہیں چھوڑا تھا-
اسرائیل ان فلسطینیوں کو اسرائیلی عرب کہتا ہے اور انھیں زبردستی اسرائیل کا شناختی کارڈ دے کر اپنا شہری کہتا ہے- لیکن ان علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے ردعمل سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت اپنی چالوں سے فلسطینیوں کا تشخص تبدیل نہیں کرسکی ہے اور انھیں اس حکومت کی تسلط پسندیوں کو تسلیم کرنے پربھی مجبور نہیں کرسکی ہے- ان حالات میں انیس سواڑتالیس کے مقبوضہ فلسطین جسے اسرائیل کا نام دے دیا گیا ہے میں بھی مزید مظاہرے شروع ہوگئے ہیں - امریکی صدر ٹرمپ نے بڑے پیمانے پرعلاقائی و عالمی مخالفتوں کے باوجود چھے دسمبر دوہزارسترہ میں بیت المقدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کر لیا-
امریکی وزارت خارجہ نے بھی چودہ مئی دوہزاراٹھارہ کو امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہےکہ جو فلسطینیوں کی شدید ناراضگی کا باعث ہوا ہے- فلسطینیوں کے حق واپسی مارچ کے زیرعنوان تیس مارچ سے شروع ہونے والے مظاہرے غزہ پٹی کی مشرقی سرحدوں سے شروع ہوئے ہیں اور بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور توقع ہے کہ فلسطینیوں کی کوششوں سے یہ مظاہرے چودہ مئی کو اپنے عروج پر پہنچ جائیں گے-
امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں اپنے اشتعال انگیز اقدامات سے مشرق وسطی سمیت علاقائی و عالمی بحرانوں کو ھوا دے رہے ہیں اور فلسطین بھی اس سے مستثنی نہیں رہا ہے بلکہ امریکہ کی سازشی پالیسیوں کا مرکز رہا ہے- بیت المقدس کے بارے میں ٹرمپ کے اقدامات اور فیصلوں کا تیسری انتفاضہ کے پھیلنے کے سوا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے- فلسطینیوں اور مجموعی طور پر عالم اسلام اور عالمی رائے عامہ کے لئے بیت المقدس کی حساسیت کے پیش نظر بیت المقدس میں اسرائیل کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کی حمایت میں امریکیوں کے ہر اقدام کے واشنگٹن کے لئے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں -
واپسی مارچ ، حالیہ برسوں میں اپنے حقوق کے حصول کے لئے فلسطینیوں کی کوششوں کا آخری نمونہ ہے کہ جو علاقے کے نئے ماحول میں اپنے خاص نتائج کا حامل رہا ہے- ابھی کچھ پہلے ایک سرگرم فلسطینی شخصیت ماہرالطاھرنے امریکہ سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے لئے واشنگٹن کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی گروہ متحد ہوجائیں اور بیت المقدس کے سلسلے میں ٹرمپ کی سازشوں کا مقابلہ کریں- فلسطین کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ حق واپسی مارچ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ملت فلسطین کی جدوجہد اور استقامت کا ایک حصہ شمار ہوتا ہے-
حق واپسی مارچ ایک عارضی فعالیت نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل اور وسیع تحریک ہے جو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ملت فلسطین کے تمام اہداف پورے نہیں ہوجاتے-