ایٹمی سمجھوتہ ، ایران کی پالیسی اور یورپیوں سے توقع
ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے بعد ایران کے مفادات عملی طور پر پورے کرنے کی شرط کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے لئے مختلف پہلؤوں سے صلاح و مشورے جاری ہیں-
یورپی ممالک چین اور روس سمیت دیگرممالک کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کے ساتھ ہی امریکہ نے ایران کے خلاف مزید نئی پابندیاں عائد کردی ہیں-
ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں اپنے واضح موقف کے اعلان کے لئے یورپی ممالک کو ایران کی جانب سے دی جانے والی چند ہفتے کی مہلت اور اس سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کی تلافی کے تناظر میں ایران کے ساتھ دیگرممالک کی گفتگو اور ایٹمی سمجھوتے کے فریق تین ممالک کے بڑے پیمانے پرصلاح و مشورے ایجنڈے کا حصہ ہے- ایران کے اعلی حکام نے ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد بھرپور تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ اگر ایٹمی سمجھوتے کے فریق تین یورپی ممالک عملی ضمانت نہ دیں گے اور ایران کے مفادات پورے طور پر حاصل نہ ہوں گے تو تہران اپنے حتمی فیصلے کا اعلان کرےگا-
اقوام متحدہ کے توثیق شدہ بین الاقوامی سمجھوتوں کی بابت امریکہ کی بے توجہی کے باعث عالمی نظام پر چھائی ہوئی بد اعتمادی کی فضاؤں میں شدت آنے کے پیش نظر ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں یورپی ممالک کی اس پالیسی کا کھل کراعلان ہونا چاہئے اور یہ واضح ہونا چاہئے کہ ایٹمی سمجھوتے کی حمایت پر تاکید ہی ایران کے لئے قابل قبول نہیں ہے- اس تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعرات کی شام جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے ٹیلی فونی گفتگو میں ایک بار پھر یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ محدود وقت میں یہ اعلان کریں کہ ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد ایران کے مفادات کیسے پورے کریں گے اور اس کی ضمانت کیسے دیں گے-
ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہے ان میں سمجھوتے میں شامل یورپی ممالک فرانس برطانیہ اور جرمنی کو ضمانت دینا پڑے گی کہ ایٹمی سمجھوتے میں ایران کے مفادات اور حقوق کو وہ پوری طرح سے کھل کر پورا کریں گے- اور رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی تاکید کے ساتھ فرمایا ہے کہ تین یورپی ملکوں کی عملی اور حتمی ضمانت کے بغیرایٹمی سمجھوتہ جاری نہیں رہ سکتا- اس دو ٹوک موقف کی وجہ ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ ہے کہ جو اس نے اس بین الاقوامی سمجھوتے پر دستخط کے بعد اختیار کیا اور اس سمجھوتے پر دستخط کے بعد بھی ایران کے مفادات کی راہیں مسدود کردیں اور آخرکار اس معاہدے سے باہر نکل گیا- امریکہ نے ایٹمی سمجھوتے میں رہتے ہوئے ایران کے سلسلے میں جو دشمنانہ رویہ اختیار کررکھا تھا وہ سمجھوتے سے باہر نکلنے کے بعد بھی اس کے ایجنڈے میں ہے- امریکہ کی وزارت خزانہ نے ایٹمی سمجھوتے سے نکلنے کے بعد جمعرات کوسپاہ پاسداران انقلاب اسلامی سے رابطے کے بہانے تین کمپنیوں اور چھے ایرانی افراد پر پابندی عائد کردی- اس سے ثابت ہوگیا کہ امریکہ نے ایرانی میزائلی پروگرام اور ایران کے موثر و مفید کردار کو نشانہ بنا رکھا ہے- امریکی صدر ٹرمپ ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں ایران کے علاقائی اثرونفوذ اور اس کے میزائلی پروگرام کے بارے میں مذاکرات کرنا چاہتے تھے اور جب ان کا یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو وہ ایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل گئے-
اس بات کے پیش نظر کہ ایٹمی سمجھوتے کے تین یورپی فریق بھی اپنی اب تک کی اعلامیہ پالیسیوں میں وہی ٹرمپ کی باتیں دہرا رہے ہیں، ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں ان کے موقف کے بارے میں ایران کی حساسیت دوچنداں ہوگئی ہے- ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد فرانس ، برطانیہ اورجرمنی سے توقع ہے کہ وہ واضح پالیسی اختیار کریں گے اور عملی طور پر ثابت کریں گے کہ وہ ذیلی مسائل پر توجہ دیئے بغیر ایٹمی سمجھوتے کے پابند ہیں- اسی تناظر میں ایران کی حکومت نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ ایٹمی سمجھوتے کے تمام فریق خاص طور پر تین یورپی ممالک ایٹمی سمجھوتے کو بچانے کے لئے لازمی اقدامات کرنے اور اپنے وعدوں پر بغیر کسی شرط کے عمل کرنے کے پابند ہیں-
ایران ایسا ایٹمی سمجھوتہ چاہتا ہے کہ جس سے امریکہ کے نکلنے کے بعد بھی ایران کے تمام اقتصادی مفادات پورے ہوں اور اگر ایران کے میزائلی پروگرام یا اس کے علاقائی اثرونفوذ وغیرہ کو بہانہ بنایا گیا تو ایٹمی سمجھوتے کا صرف نام باقی رہے گا- ان حالات میں ایران، اگر یورپی ممالک کے ساتھ چند ہفتوں کے صلاح و مشورے کے بعد اس نتیجے پرپہنچے کہ ایٹمی سمجھوتے سے ملت ایران کے مفادات پورے نہیں ہوں گے تو اپنی موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرے گا-