Jun ۰۲, ۲۰۱۸ ۱۸:۴۳ Asia/Tehran
  • فلسطینی مزاحمت کی مذمت میں، سلامتی کونسل میں امریکہ کو شکست

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کے حق میں امریکی مسودہ قرارداد کو مسترد کردیا۔

عرب میڈیا کے مطابق سلامتی کونسل نے اسرائیل کے حق میں امریکی مسودہ قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔ امریکی قرارداد کے حق میں سوائے امریکا کے اور کسی کا ووٹ نہیں آیا جب کہ امریکی مندوب نکی ہیلی نے عجیب منطق اپناتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی مظلوم ہیں اور انہیں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ امریکی قرارداد کی، روس کویت اور بولیویا نے مخالفت کی جبکہ گیارہ ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکی مسودہ قرارداد کو بری طرح سے مسترد کردیئے جانے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ ٹرمپ انتظامیہ عالمی سطح پر خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے تعلق سے بالکل الگ تھلگ پڑگئی ہے- اس قررداد کو اس وقت مسترد کیا گیا جب جمعے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں، فلسطین کی حمایت میں کویت کی مجوزہ قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کردیا- سلامتی کونسل میں کویت کے مندوب ناصرالعتیبی نے اس بارے میں کہا کہ امریکی ویٹو سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صیونی حکومت بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کرنے سے مستثنی ہے اور اس طرح کے ویٹو سے بحرانوں اور کشیدگیوں میں اضافہ ہوگا - کویت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ غزہ کی صورتحال پر جنرل اسمبلی جائیں گے۔

صیہونی فوجیوں نے تیس مارچ 2018 سے اب تک ایک سو بیس سے زائد فلسطینیوں کو واپسی مارچ کے مظاہروں کے دوران غزہ کے علاقے میں گولی مار کر شہید کیا ہے- ان جرائم کے بعد کویت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک مسودہ قرارداد پیش کرکے اس کونسل کے ارکان سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کے عام شہریوں کے خلاف صیہونی حکومت کے ذریعے طاقت کے استعمال کی سختی سے مذمت کریں- اس مسودہ قراراد میں اسی طرح کویت نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ عام شہریوں کے خلاف فوجی کاروائی ، اجتماعی سزائیں دینے اور غیر قانونی اقدامات سے ہاتھ کھینچ لے-

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حملوں میں شدت ایسے میں آئی ہے کہ اس حکومت کو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ برسہا برس سے واشنگٹن حکام اور اس کے اتحادی ممالک، تل ابیب کی حمایت کرکے فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے صیہونی حکومت کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ ٹرمپ نے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی سفارتخانے کو تل ابیب منتقل کردیا جس پر دنیا کے بیشتر ملکوں حتی واشنگٹن کے اتحادی ملکوں نے بھی اپنا منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ لودریان نے اس بارے میں کہا کہ امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کا ٹرمپ کا فیصلہ، غلط تھا- امریکہ کی خارجہ تعلقات کونسل کے سربراہ ریچرڈ ہاس نے بھی اس بارے میں کہا کہ امریکہ نے اس اقدام سے ایک بے وقعت کام کے لئے بھاری رقم خرچ کی- 

امریکہ، اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے علاوہ، سعودی عرب اور صیہونی حکومت کو ڈکٹیٹ کرنے کے ساتھ ہی بعض عرب ملکوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے اور اسی طرح اسرائیل کی حمایت میں سنچری ڈیل سے موسوم منصوبہ پیش کرنے کے درپے ہے۔ یہ حمایتیں ایسی حالت میں جاری ہیں کہ اسرائیل کے توسط سے فلسطینیوں کا قتل عام بدستور جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس وقت اقوام متحدہ میں امریکہ کی ریکارڈ توڑ شکست سے، کہ جس میں صرف اس نے اکیلے ہی مثبت ووٹ دیا، یہ ثابت ہوگیا کہ امریکہ ماضی سے زیادہ اس وقت الگ تھلگ پڑگیا ہے۔  ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی دشمنانہ پالیسیوں کی ٹرمپ کی جانب سے غیر مشروط حمایت اس بات کا باعث بنی ہے کہ حتی بعض امریکی اتحادی بھی اسرائیل کے سلسلے میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے تعلق سے شکوک و شبہات سے دوچار ہوجائیں-     

 

ٹیگس