Jul ۰۲, ۲۰۱۸ ۱۶:۵۶ Asia/Tehran
  • طالبان کے سلسلے میں افغانستان و پاکستان کے درمیان سمجھوتہ

افغانستان کے صدر نے حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ یکطرفہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد اعلان کیا ہے کہ پہلی بار حکومت پاکستان کے ساتھ طالبان کے سلسلے میں ایک تحریری سمجھوتہ ہوا ہے -

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ افغانستان و پاکستان کے درمیان مسائل کے حل کا واحد راستہ گفتگو ہے اور طالبان ہمیشہ ہی دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا اہم محور رہے ہیں- اشرف غنی نے عید سعید فطرکی مناسبت سے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور پھر اس کی مدت میں بھی توسیع کردی تھی تاہم طالبان کی جانب سے جنگ بندی جاری رکھنے کی مخالفت کے باعث فریقین نے ایک دوسرے کے اڈوں پر پھر سے حملے شروع کردیئے اور اس طرح سنیچر کے دن سے افغان حکومت کی یکطرفہ جنگ بندی ختم ہوگئی اور فوج نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے شروع کردیئے ہیں - طالبان کی سرگرمیوں کے سلسلے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ حکومت افغانستان کا خیال ہے کہ افغان عوام کے خلاف طالبان گروہ کے حملے دین اسلام اور شریعت کے خلاف ہیں اور طالبان کو اسلامی ملکوں میں علماء کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا کہ ان کے پاس افغان عوام کے خلاف جنگ کرنے کا شرعی جواز کیا ہے- دوسرا موضوع پاکستان سے متعلق ہے کہ جو حکومت افغانستان کی نظر میں اس گروہ کا اصلی حامی سمجھا جاتا ہے- اگرچہ افغانستان کے صدرمحمد اشرف غنی نے طالبان کے سلسلے میں پاکستانی حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی شقوں کے سلسلے میں کچھ نہیں بتایا تاہم افغانستان کے ساتھ امن کے عمل میں شامل ہونے کے لئے طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لئے پاکستان سے علاقائی و بین الاقوامی درخواستوں اور امریکہ کے سیاسی و اقتصادی دباؤ کے پیش نظر ایسا نظرآتا ہے کہ حکومت اسلام آباد بھی طالبان کے سلسلے میں اپنا موقف تبدیل کررہی ہے اورافغان صدر کا یہ بیان کہ کابل و اسلام آباد کو طالبان کے ختم ہونے کے بعد کے دور کے لئے اپنے تعلقات پرنظرثانی اورانھیں ازسرنو منظم کرنے پر مبنی بیان بھی اسی تناظر میں جائ‏زہ لئے جانے کے قابل ہے- یہ وہ صورت حال ہے کہ جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے افغانستان میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے- 

سیاسی امور کے ماہر رفیع اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ : تمام سیاسی گروہوں ، رہنماؤں اور شخصیتوں کو کہ جو اندر یا باہر سے افغان حکومت میں شامل ہیں ، طالبان کے ساتھ گفتگو کے سلسلے میں اتفاق رائے رکھنا چاہئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس ملک میں امن منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا-

حکومت افغانستان کے لئے تشویش کی ایک بات یہ ہے کہ کہیں طالبان کے بعد بیرونی حمایت یافتہ بعض دیگرگروہ، اس ملک میں خونی تشدد کا سلسلہ جاری نہ رکھیں اور طالبان کی جگہ لینے والے دوسرے گروہ افغانستان میں بحران نہ کھڑا کریں- یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ افغان صدرمحمد اشرف غنی ، اسلام آباد کے ساتھ گفتگو میں اس موضوع کو مدنظر رکھیں گے اور کابل حکومت اس نکتے پر تاکید کرتی ہے کہ وہ افغانستان میں پائدار قیام امن چاہتی ہے-

سیاسی مسائل کے ماہر فضل الرحمان اوریا کا کہنا ہے کہ : پائدارامن کے حصول کے لئے افغانستان میں متصادم دھڑوں کو امن کی معین و واضح تعریف کرنا چاہئے - قومی حکومت اور طالبان ابھی تک امن کی ایک واضح تعریف پراتفاق نہیں کر سکے ہیں - موجودہ حالات میں کہ جب طالبان بعض علاقوں میں فوجی و اقتصادی لحاظ سے اچھی پوزیشن میں ہیں ، مشکل سے ہی امن کے عمل میں شامل ہوں گے-  بہرحال افغان حکومت کی جانب سے یکطرفہ جنگ بندی کا طالبان کی جانب سے مثبت جواب نہ دینے سے واضح ہوگیا کہ اس ملک میں بحران و بدامنی مسلسل جاری ہے اور افغان صدر کی اس بات پرتاکید کہ کابل حکومت، پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو خودمختاری اور ارضی سالمیت کی بنیاد پرآگے بڑھائے گی یہ ثابت کرتی ہے کہ حکومت کابل ، طالبان کے موضوع پراسلام آباد سے ڈیورنڈلائن کا سودا نہیں کرے گی- یہ وہ صورت حال ہے جو افغانستان میں امن کی فضا پرکالے بادل بن کرچھائی رہے گی اور حکومت افغانستان و پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی پابندی کے سلسلے میں اسلام آباد کی راہ میں حائل رہے گی- 

ٹیگس