آمر و ظالم حکومتیں کی ایران کے خلاف امریکہ کی ہمنوائی؛ ماضی سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت
امریکی صدر ٹرمپ نے گذشتہ چند مہینوں سے ایران کے خلاف اپنا نہایت شدید دشمنانہ رویہ مزید برملا کردیا ہے-
ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف تجارت ، بینکنگ اور تیل کی برآمدات سمیت مختلف قسم کی شدید پابندیاں عائد کرکے اورعلاقائی فوجی اتحاد تشکیل دے کر علاقائی و عالمی سطح پر دشمنانہ اقدام پر عمل پیرا ہے- اس عمل میں علاقے کی بعض رجعت پسند حکومتیں یہ خیال کرتی ہیں کہ وہ ایران کے خلاف امریکی الزامات میں اس کا ساتھ دے کر اپنی کوئی جگہ بنا سکتی ہیں- اس تناظر میں بحرین کے وزیرخارجہ نے امریکہ اور سعودی عرب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک نہایت پست بیان دیتے ہوئے ایران پر علاقے میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگایا-
بحرین کے وزیرخارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے دعوی کیا کہ تہران نے ایران کا تیل برآمد نہ ہونے کی صورت میں علاقے کی تیل برآمدات روک دینے کی دھمکی ایسے عالم میں دی ہے کہ اسے اقتصادی مسائل کا سامنا ہے-
یہ بیانات ، تیل کی برآمدات پوری طرح بند کرنے کی امریکی دھمکی کے جواب میں سوئیزرلینڈ میں مقیم ایرانیوں سے خطاب میں صدر حسن روحانی کے اس بیان کی جانب اشارہ ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایران کے تیل کی برآمدات کو روکنے کے سلسلے میں ڈونالڈٹرمپ کے بیانات کا مطلب یہ ہے کہ پورے علاقے کا تیل برآمد نہیں ہو پائے گا-
البتہ واشنگٹن کے علاقائی اتحادی ٹرمپ کے ساتھ یکجہتی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کو ایک موقع سمجھتے ہیں کیونکہ وہ علاقے سے باہر بحران کھڑا کر کے ہی اپنی بقا کی امید کرسکتے ہیں-
بحرین کی جانب سے تکراری اور مبہم دعوے وہ بھی ایسی حالت میں کہ جب یہ ڈکٹیٹر حکومت علاقے میں امریکہ کے ایک اصلی فوجی اڈے کے عنوان سے علاقے میں عدم استحکام کے پازل کا ایک حصہ ہے، کچھ زیادہ غیرمتوقع نہیں ہیں تاہم بحرینی حکومت کے بے بنیاد دعوے اس ڈکٹیٹرحکومت کے مسائل و مشکلات کو حل نہیں کرسکیں گے-
واضح ہے کہ امریکہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے ہرہتھکنڈے کو استعمال کرتا ہے اور اسی کے تحت ٹرمپ، جرائم پیشہ اور بچوں کی قاتل حکومتوں کا ساتھ بھی غنیمت سمجھتے ہیں- الجزیرہ ٹی وی چینل نے اپنے ایک تجزیے میں کہا ہے کہ اس عمل میں وائٹ ہاؤس تنہا نہیں ہے اور صیہونی حکمراں بھی واشنگٹن کے ساتھ مل کر تین محاذوں سے اپنی ایران مخالف کوششیں انجام دے رہا ہے-
مسلمہ امر یہ ہے کہ امریکی اقدامات کا مقصد علاقے میں کشیدگی اور جنگ کرانا ہے بنا برایں اس پالیسی کا ساتھ دینے کا مطلب علاقے میں امریکہ کی جانب سے کشیدگی میں حصہ لینا اور عدم استحکام پیدا کرنا ہے-
امریکہ کی جانب سے اس پالیسی پر اصرار ایک تاریخی غلطی کی تکرارہوگی کہ جس کے علاقے اور دنیا کے لئے سنگین نتائج برآمد ہوں گے- امریکی حکومتیں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک پے درپے اپنے غلط اندازوں کی بنیاد پراس دھڑے کو ملت ایران کے ساتھ کھلی دشمنی پراکساتی رہی ہیں - مسلط کردہ جنگ کے دور میں بھی ثابت ہوچکا ہے کہ خلیج فارس کے بعض ممالک کس طرح امریکہ کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں-
تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا فائدہ اس بات میں ہے کہ وہ کچھ حقیقت پسندی سے کام لیں اور ماضی سے سبق سیکھیں اور سابقہ غلطیوں کو نہ دہرائیں کیونکہ اس کا نتیجہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا-
واضخ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی مصلحت اور مفاد علاقے میں امن و ثبات اور سیکورٹی میں ہی سمجھتا ہے- ایران نے علاقے میں امن و ثبات کے تحفظ میں اپنے مفادات کے پیش نظر جوابی اقدامات انجام دیئے ہیں اورآئندہ بھی بغیر کسی تحفظ کے ایسا ہی کرے گا- ایران کے پاس بہت سے آپشن ہیں اور ضرورت ہوئی تو ایٹمی سمجھوتے سے متعلق تمام معاہدوں کو بھی بالائے طاق رکھ دے گا-