ایران کے تیل کی زیرو ایکسپورٹ پالیسی پر عالمی ردعمل
ان دنوں ایران کے تیل کے بائیکاٹ اور اس کے ایکسپورٹ کو زیرو پوائنٹ تک پہنچانے کی بحث، ریسرچ سنٹرز کی توجہ کا باعث بنی ہے اور ان سنٹرز نے خبر دار کیا ہے کہ اس اقدام سے تیل کی قیمت میں فی بیرل ڈیڑھ سو ڈالر تک اضافہ ہوجائے گا-
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ نومبر کے مہینے تک، ایران سے تیل کی ایکسپورٹ کو زیرو تک پہنچانے کا دعوی کیا ہے- ٹرمپ نے سعودی عرب کے بادشاہ سے ٹیلیفونی گفتگو انجام دینے سے لے کر امریکی وفود کو یورپی اور مشرقی ایشیا کے ملکوں میں روانہ کیا ہے تاکہ ان کو ایران سے تیل کی خریداری سے روک سکیں- لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران جیسے تیل پیدا کرنے والے اہم اور طاقتور ملک کو تیل کی عالمی منڈی سے حذف کیا جانا ممکن ہے اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا امریکہ اس کے نتائج سے باخبر ہے؟
امریکہ کی زیرو آئل ایکسپورٹ پالیسی کے بارے میں صدر حسن روحانی نے اس سوال کا جواب بخوبی دیا ہے۔ صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکام یہ دعوی کر رہے ہیں کہ وہ ایرانی آئل ایکسپورٹ کا راستہ مکمل طور پر بند کر دیں گے، انہیں اس کا مطلب پتہ نہیں ہے، کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایران کا تیل ایکسپورٹ نہ ہو اور علاقے کا تیل بکتا رہے، اگر تم یہ کر سکتے ہو تو کر کے دیکھ لو، اس کا نتیجہ بھی تمہارے سامنے آجائے گا۔
دوسری جانب امریکہ کے دوسرے بڑے بینک نے ٹرمپ کی جانب سے ایرانی تیل کی زیرو ایکسپورٹ پالیسی کے خطرناک نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ بینک آف امریکہ کی نگرانی میں کام کرنے والے امریکہ کے سب سے بڑے سرمایہ کاری بینک میریل لنچ (Bank of America Merrill Lynch) نے خبر دار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے تیل کی ایکسپورٹ کو مکمل طور پر روکنے کا فیصلہ کیا تو عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں ایک سو بیس ڈالر فی بیرل تک پہنچنے کا امکان ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے اس سے پہلے دعوی کیا تھا کہ حکومت امریکہ ایرانی تیل کی ایکسپورٹ کو زیرو تک پہنچانا چاہتی ہے اور وہ کسی بھی کمپنی یا ملک کو ایران سے تیل کی خریداری میں چھوٹ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ بینک آف امریکہ کا شمار اس ملک کے بڑے بینکوں میں ہوتا ہے جبکہ اپنے اثاثوں کے لحاظ سے امریکہ کا دوسرا بڑا بینک کہلاتا ہے۔
اپنی کل آمدنی کے لحاظ سے سن دو ہزار سولہ کے اختتام پر بینک آف امریکہ کو ملک کی چھبیسویں بڑی کمپنی کا درجہ حاصل رہا ہے۔ بینک آف امریکہ کا یہ انتباہ زیرو ایران آئل ایکسپورٹ پالیسی کے خطرناک نتائج کو ظاہر کرتا ہے جو اس بینک کے ماہرین کی رائے کے مطابق رواں سال کے آخر میں تیل کی عالمی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافے کا باعث بنے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ اس خام خیالی میں مبتلا ہے کہ امریکہ کے علاقائی اتحادی اور خاص طور سے سعودی عرب، خام تیل کی پیداوار میں اضافے اور عالمی منڈیوں میں ایرانی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے قابل ہوں گے۔ یہ بات اس لحاظ سے بھی مشکوک ہے کہ سعودی عرب اس وقت اپنی مکمل گنجائش کے مطابق تیل نکالنے اور ایکسپورٹ کرنے میں مصروف ہے۔
ایس این پی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے ماہر گری راس کا بھی خیال ہے کہ یومیہ گیارہ ملین بیرل تیل نکالنا ، سعودی عرب کے تیل کے ڈھانچے پر حد سے زیادہ دباؤ بڑھ جانے کے مترادف ہے-بلمبرگ نیوز چینل نے بھی اتوار کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جب نومبر کے مہینے میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر عملدرآمد شروع ہوگا تو تیل برآمد کرنے والے ممالک ایران کے تیل کے پیداوار کی تلافی نہیں کر پائیں گے۔ اگر ٹرمپ ایران کی تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر روکنے میں کامیاب ہوگئے تو تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو یومیہ ستائیس لاکھ بیرل تیل پیدا کرنا ہوگا اور یہ کام بہت دشوار ہوگا-
ایران کے تیل کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے آسان خواب نہیں ہے اور حتی امریکی صدر کی جانب سے تیل کی مقدار میں اضافے کا سعودی عرب سے مطالبہ اور ایران کے تیل کی جگہ پر کرنا، اس عرب ملک کے لئے فنی اور عملی لحاظ سے بہت مشکل ہوگا- قابل ذکر ہے کہ چین اور ہندوستان جیسے ممالک پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں وہ ایران سے تیل کی خریداری ترک نہیں کریں گے جبکہ یورپی پیکیج میں بھی اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ایسی صورت میں امریکہ کی جانب سے ایران کی آئل ایکسپورٹ روکنے کی پالیسی پہلے ہی ناکام دکھائی دیتی ہے۔