طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل کے بارے میں عبداللہ عبداللہ کا اظہار خیال
افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ طالبان گروپ کے ساتھ امن مذاکرات اور افغان عوام کی سرنوشت کا فیصلہ، اس ملک کی حکومت اور عوام کا حق ہے-
عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو تنہا ہی افغان امن عمل کے بارے میں فیصلے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے گروہ طالبان کے ساتھ امریکی مذاکرات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقاتیں امن مذاکرات کے مترادف نہیں ہیں- افغان صدر کے نائب ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے بھی طالبان گروہ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کہا کہ اس گروپ کے ساتھ امن مذاکرات کے عمل کا تعلق افغان حکومت سے ہے۔ طالبان کے ساتھ امریکہ کے خفیہ مذاکرات پر افغان حکام کے منفی ردعمل ، کہ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور میں امریکہ کے نائب وزیر خارجہ آلیس ولز Alice Wells نے بھی تائید کی ہے، سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابل حکومت اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گی اور وہ صرف ملکی حکام اور اداروں کے ذریعے ہی، افغان امن عمل میں پیشرفت انجام پانے کی خواہاں ہے۔
اس لئے افغان امن عمل، ہر چیز سے زیادہ قومی وحدت و اتحاد کا متقاضی ہے اس طرح سے کہ اندرون ملک تمام قومی و مذہبی گروہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے اتفاق رائے رکھتے ہوں- کیوں کہ افغان عوام کے نقطہ نظر سے طالبان اور امریکہ ، افغانستان کی قومی سلامتی کے لئے نقصان دہ ہیں اور یہ دونوں دشمن طاقتیں افغانستان میں قیام امن کے عمل اور مستقبل کی تبدیلیوں کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ہیں- اسی سبب سے کابل حکومت نہ صرف ایسے امن مذاکرات میں شرکت نہیں کرنا چاہتی ہے کہ جو امریکی قیادت میں انجام پا رہے ہیں بلکہ وہ بدستور مختلف طریقوں سے اس کوشش میں ہے کہ طالبان کو ہتھیار ڈال دینے کی ترغیب دلائے-
یونیورسٹی پروفیسر اور سیاسی ماہر لطیف نظری کہتے ہیں: امریکہ، افغانستان میں نہ صرف فوجی اور سیکورٹی لحاظ سے موجود ہے بلکہ ایک ایسی طاقت کی حیثیت سے موجود ہے کہ جو علاقے میں نیا جیوپولیٹکل کھیل شروع کرنا چاہتی ہے، اور اس سلسلے میں اس کے واضح اہداف اور معین پروگرام ہیں اور اسی سبب سے واشنگٹن کی کوشش ہے کہ وہ افغانستان کے تمام امور میں مداخلت کرے اور اسے اپنے مفادات میں استعمال کرے-
افغانستان میں عظیم قومی اتحاد کی تشکیل، کہ جس کا ایک مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کے طریقہ کار کی تدوین انجام دینا ہے اور ساتھ ہی کابل حکومت کی جانب سے قیام امن کے عمل کی حمایت سے واضح ہوجاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لئے تمام قومی ، مذہبی اور سیاسی دھڑوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے- افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے، اس ملک میں افغان حکومت کے سیاسی مخالفین پر مشتمل عظیم قومی اتحاد کی حمایت، پشتون قوم کی اعلی ترین سطح پر حمایت کے مترادف ہے کہ جس کا مقصد طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو ملکی سطح پر انجام پانا چاہئے۔
سیاسی مسائل کے ماہر محمد یوسف امین زازی کہتے ہیں افغانستان میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ غیر ملکی فورسیز اس ملک میں موجود رہیں اور افغانستان کے امور میں مداخلت کریں لیکن بڑی طاقتوں کے درمیان رقابتیں اس بات باعث بنی ہیں کہ افغانستان جیسے ملک کو ان رقابتوں کے میدان میں تبدیل کردیں۔ اور ہم صرف ملکی سطح پر عوامی بیداری اور ہوشیاری کے ذریعے ہی اسے ناکام بناسکتے ہیں-
بہرصورت افغانستان کے داخلی امور میں بیرونی مداخلتوں کی عبداللہ عبداللہ کی جانب سے مخالفت، امریکہ اور برطانیہ کے لئے ایک انتباہ ہوسکتی ہے کہ جو طالبان کو سرکاری حیثیت سے تسلیم کرکے اور افغان حکومت کی مخالف فوجی طاقت کی حیثیت سے اس گروہ کے ساتھ مذکرات انجام دے کر افغانستان کے امور کو اپنے مفادات میں ڈکٹیٹ اور منظم کرنے میں کوشاں ہیں - یہ ایسی حالت میں ہے کہ طالبان گروہ بھی یہ جانتا ہے کہ افغان عوام نہ صرف اغیار مخالف ہیں بلکہ وہ ایسے گروہوں کے ساتھ کہ جو افغانستان میں اغیار کی موجودگی کو مستحکم کرنے کے درپے ہیں ، سختی کے ساتھ مقابلہ بھی کر رہے ہیں-