یوم اسلامی انسانی حقوق اور احترام انسانیت
پانچ اگست کو اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم اسلامی انسانی حقوق اور احترام انسانیت منایا جاتا ہے
یوم اسلامی انسانی حقوق اور احترام انسانیت کی مناسبت سے سنیچر کو تہران میں تیسری بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح ہوا-
انسانی حقوق ایسے موضوعات میں شامل ہے کہ جسے سامراجی ممالک دیگر ممالک پر تسلط حاصل کرنے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں- اس بنیاد پر اسلامی حکومتوں اور مسلم دانشوروں نے شروع سے ہی انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی مخالفت کی ہے- اس کے باوجود عالم اسلام کے بعض مفکرین نے عالمی اعلامیے میں مذکورہ اصولوں کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں اسلامی اصولوں اور معیارات سے مطابقت دینے کی کوشش کی تاکہ ثابت کرسکیں کہ اسلام میں یہ اصول اور حقوق زیادہ بہتر اور جامع شکل میں موجود ہیں -
اسلامی انسانی حقوق کے اعلامیے کی ایک گرانقدر اور اہم خصوصیت ان نکات پر توجہ ہے کہ جن پر عالمی اعلامیے میں توجہ نہیں دی گئی ہے یا سطحی ہے اورسرسری نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سیاسی تحفظات کی وجہ سے اس سلسلے میں ایک طرح سے غفلت برتی گئی ہے- مثال کے طور پر اسلامی انسانی حقوق کے اعلامیے میں سامراج اور سامراجیت کا پوری طرح انکار اور تمام انسانوں کو اس کے خلاف جدوجہد کا حق دیا گیا ہے اورسامراج و سامراجیت کی مختلف شکلوں کو غلامی کی بدترین قسم قرار دیتے ہوئے ان کا کھل کر بائیکاٹ کیا گیا ہے- اس موضوع کی جانب انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی چوتھی شق میں اشارہ کیا گیا ہے تاہم فرق یہ ہے کہ اسلامی انسانی حقوق کے اعلامیے میں اس کی مزید وضاحت و تفصیل بیان کی گئی ہے- اسلام کی انسانی و الہی نظر میں انسانی حقوق صرف قابل تعریف نہیں بلکہ حیرت انگیز ہے-
امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر اسماعیل فاروقی کا کہنا ہے کہ : اسلامی حکومت کے قلمرو میں قانون کے دائرے میں غیرمسلم شہریوں کے لئے بھی تشخص کے اقدار کے فروغ کا حق موجود ہے اورغیرمسلم شہری کو بھی اسی جیسا حق حاصل ہے-
معروف برطانوی مورخ رابرٹ بریفالٹ ، آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر بارہویں صدی عیسوی کے آخر تک کے دور کو دنیائے اسلام کے لئے توانائی سے بھرپور ، فعال، تعمیری اور درخشاں تہذیب و تمدن کا حامل اور ظلم و بربریت میں غرق مغربی دنیا سے مقابلے کا دور سمجھتے ہیں-
بریفالٹ کا خیال ہے کہ تمام افراد کے لئے آزادی ، انسانوں کے درمیان برادری و برابری ، عوامی ووٹوں اور کونسلوں پر مبنی حکومت وہ اہداف تھے کہ جو انقلاب فرانس اور حقوق سے متعلق اعلامیہ اور امریکہ میں آئین کی تیاری کی رہنمائی کرتے تھے اور اسی اصول کے تحت لاطینی امریکہ کے ممالک میں خودمختاری کے لئے جدوجہد شروع ہوئی- یہ مغرب کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ان اہداف اور اصولوں کا سرچشمہ قرآن کریم ہے - ان اہداف میں زیادہ تر وہی مقاصد شامل ہیں جنھیں قرون وسطی کے یورپی دانشوروں نے صلیبی جنگوں کے دوران اوراسپین و سیسلی کے مسلمانوں جیسے مختلف چینلوں کے ذریعے اسلام سے حاصل کئے تھے-
ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ جس زمانے میں مغربی ممالک کے عوام کی بڑی تعداد تاریکی ، جہالت اور گمراہی میں ڈوبی ہوئی تھی اور قرون وسطی کے دور میں زندگی بسر کررہی تھی اس دور میں عظیم اسلامی مفکرین و محققین نے علم وفن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے - مسلمانوں کی خلاقیت اور سائنسی ایجادات یورپ میں رنسانس کا راستہ ہموار ہونے کا باعث بنیں اور انسانوں کے لئے مختلف میدانوں میں ترقی و پیشرفت کا افق روشن ہوا-