امریکہ اور قانون سے گریز
امریکہ کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد امریکہ انیس سو پچپن کے معاہدے سے باہر نکل گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے انیس سو پچپن میں ایران و امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کی بنیاد پر ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد دوبارہ پابندیوں کی بحالی کے خلاف شکایت کی ہے - عالمی عدالت انصاف نے امریکہ کے خلاف ایران کی اپیل کی سماعت سے متعلق اپنے با اختیار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے واشنگٹن سے عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک ایران کے خلاف انسان دوستانہ امور اور اسی طرح شہری ہوا بازی کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی عدالت انصاف کے اس اقدام سے واضح ہوگیا کہ امریکہ کے یکطرفہ اقدامات کو عالمی برادری کی تائید و حمایت حاصل نہیں ہے- امریکہ میں صدر ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی اس ملک کی حکومت نے قانون سے گریز کو اپنا ایجنڈہ بنا لیا ہے-
اس تناظر میں عالمی عدالت کا ابتدائی فیصلہ ایران کے حق میں آنے کے ساتھ ہی امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ انیس سو پچپن کے معاہدے کو انتالیس سال پہلے ہی منسوخ ہو جانا چاہئے تھا تاہم اب امریکہ اس معاہدے کا پابند نہیں ہے اور اس سے باہر نکل رہا ہے- اس اقدام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے بدھ کی رات کہا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان انیس سو پچپن کے معاہدے سے امریکہ کا باہر نکلنا امریکہ کی جانب سے قانون سے گریز کی ایک اور مثال ہے-
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس اور ٹرمپ کی سربراہی میں سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد اب عالمی عدالت انصاف کے ابتدائی فیصلے کا اعلان امریکہ کی تنہائی کا سلسلہ جاری رہنے کی ایک اور مثال ہے- امریکی صدر ٹرمپ نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں امریکہ کی تنہائی کا مشاہدہ کیا اور خود عالمی رہنماؤں کے ہاتھوں اپنا مذاق اڑتا ہوا دیکھا اس عمل کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ٹرمپ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس کے پندرہ ارکان میں سے چودہ ارکان کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی اعلانیہ حمایت کا منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اور شرمندگی کے عالم میں سلامتی کونسل کے اجلاس سے باہر نکل گئے- اس وقت عالمی عدالت انصاف نے امریکہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایٹمی سمجھوتے کی مخالفت اور ایرانی عوام پر پابندی کا سلسلہ ختم کرے-
اس سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حقانیت کا پتہ چلتا ہے کہ جس نے ایک بار پھر امریکہ کے مقابلے میں قانونی جنگ جیت لی ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کمیشن کے سربراہ حشمت اللہ فلاحت پیشہ نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کا یہ اعلان کہ اسے امریکہ کے خلاف ایران کی شکایت کی سماعت کرنے کا حق ہے ، امریکہ کی طاقت کا غرور کو توڑنے کے مترادف اور بین الاقوامی لحاظ سے اسے ایران کے حق میں سمجھا جا سکتا ہے-
حالیہ دنوں کے تمام اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ کی قانون شکنی اور جانبداری کا عالمی سطح پر کوئی حامی نہیں ہے اور امریکہ کی منھ زوری کا مقابلہ کرنے کے لئے عالمی اتفاق رائے ضروری ہے- عالمی عدالت انصاف کے ابتدائی فیصے کی امریکہ کی جانب سے مخالفت ، ایران کے ساتھ تعاون سے روکنے کے لئے دوسروں کو دھمکی دینا ، پابندیاں عائد کرنا اور ایٹمی سمجھوتے سمیت دیگر عالمی سمجھوتوں سے باہر نکلنا اقوام متحدہ کی کھلی خلاف ورزی ہے- اس سلسلے میں بین الاقوامی قوانین کے سینیئر پروفیسر جمشید ممتاز نے بدھ کو ایران کے خلاف امریکہ کی ثانوی پابندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندیاں سرحد پار سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا مقصد خودمختار حکومتوں کے خارجہ تعلقات پر براہ راست اثرانداز ہونا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے منشور میں موجود دیگر ممالک میں عدم مداخلت کے بنیادی حقوق کے اصول کی مخالفت ہے-
بہرحال امریکہ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد انیس سو پچپن کے معاہدے سے نکلنے کا جو اعلان کیا ہے وہ عہد شکنی اور معاہدے سے باہر نکلنے کی ایک اور مثال ہے جس کی عالمی برادری تائید و حمایت نہیں کرتی- برطانیہ سے شائع ہونے والے روزناہ گارڈیئن کی عالمی امور کے ماہر لوسی ہیلی کا کہنا ہے کہ انیس سو پچپن کے معاہدے میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو اس معاہدے سے باہر نکلنے سے ایک سال قبل دوسرے فریق کو تحریری طور پر اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا چاہئے-