Oct ۰۹, ۲۰۱۸ ۱۷:۵۶ Asia/Tehran
  • عالمی عدالت انصاف میں ایران کی شکایت کے خلاف امریکہ کا کمزور موقف

ایران نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے گذشتہ تین برسوں میں امریکہ کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں دوشکایتیں پیش کی ہیں-

گذشتہ ہفتے عالمی عدالت انصاف نے امریکہ کے ساتھ 1955 کے معاہدے سے متعلق ایران کی شکایت کی سماعت کرتے ہوئے اپنا عارضی فیصلہ سنایا اور حتمی فیصلہ آنے تک امریکہ کو پابندیوں کو معطل رکھنے کا حکم دیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے امریکہ کے خلاف ایران کی اپیل کی سماعت سے متعلق اپنے با اختیار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے واشنگٹن سے، عدالت کا فیصلہ آنے تک ایران کے خلاف انسان دوستانہ امور اور اسی طرح شہری ہوا بازی کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے جاری کردہ فیصلے میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس فیصلہ پر عمل درآمد لازمی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کا اطلاق ہو گا۔ فیصلے میں امریکہ کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے سے اپنی غیر قانونی علیحدگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام رکاوٹوں منجملہ ایران کے ساتھ تجارت کے حوالے سے جو رکاوٹیں اس نے پیدا کی ہیں انہیں فوری طور پر ختم کرے۔ عالمی عدالت انصاف نے امریکہ کو اس بات کا بھی پابند بنایا ہے کہ وہ اس فیصلے میں درج کیے گئے معاملات میں ضروری لائسنس جاری کرنے کی ضمانت فراہم کرے اور اس سے متعلقہ تمام ادائیگیاں اور لین دین انجام دے۔

اس عالمی عدالت انصاف نے پیر کے روز سے ایران کے مرکزی بینک کے اثاثوں کو ضبط کئے جانے کے کیس کے تعلق سے امریکہ کے خلاف ایران کی شکایت کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔  امریکہ کی سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2016 کو نیویارک میں ایران کا دو ارب ڈالر کا اثاثہ ضبط کئے جانے کا حکم صادر کیا تھا۔ واضح رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے بیس اپریل کو فیصلہ دیا تھا کہ امریکی عدالتیں نام نہاد دہشت گردانہ واقعات کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ کو تاوان ادا کرنے کے لیے امریکہ میں ایران کے منجمد شدہ اثاثوں سے رقم حاصل کر سکتی ہیں۔ 

ایران کے حکام نے ایران کے اثاثوں میں سے دو ارب ڈالر ضبط کرنے کے سلسلے میں امریکی عدالت کے غیرقانونی اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بیروت میں امریکی میرینز کے اڈے پر حملے میں ایران کے ملوث ہونے کے بےبنیاد بہانے کی بنیاد پر دیے گئے امریکی عدالت کے فیصلے سے ایران کے اثاثوں کو ضبط کیا گیا ہے۔ اس کیس کے مدعی ان دو سو اکتالیس امریکی میرینز کے اہل خانہ ہیں کہ جو انیس سو تراسی میں بیروت میں اپنے اڈے میں ہونے والے دھماکے میں مارے گئے تھے۔

ایران نے جون 2016 میں عالمی عدالت انصاف میں ایک شکایت پیش کی تھی اور ان ضبط شدہ اثاثوں کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا تھا- عالمی عدالت انصاف نے اعلان کیا تھا کہ اکتوبر 2018 میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔  ایران کے مرکزی بینک کے اثاثے ضبط کرنے سے متعلق شکایت میں ایران کی کامیابی کے امکان کے باعث امریکیوں کی وحشت اور خوف اس بات کا باعث بنی ہے کہ واشنگٹن کے حکام ، تہران پر اس عالمی عدالت سے غلط فائدہ اٹھانے کا الزام عائد کر رہے ہیں- اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران، بین الاقوامی عدالت میں شکایت کرکے بقول ان کے اپنے سیاسی و تشہیراتی اہداف کے لئے اس عدالت سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے- 

امریکی عدالتوں کا ایران کے ساتھ رویہ ہمیشہ دوہرا رہا ہے ، اور اسی دوہرے رویے کے دائرے میں ایران مخالف اقدامات انجام پا رہے ہیں- امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایسے میں امریکہ میں ایران کے مرکزی بینک کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی عدالت نے 1983 میں بیروت میں امریکی میرینز کے اڈے میں دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام کے سبب ایران کی مذمت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیاہے- اس بناء پر امریکی عدلیہ نے اس واقعے میں ایران کے ملوث ہونے کے تعلق سے کوئی ٹھوس ثبوت کے بغیر صرف ایران پر دباؤ بڑھانے، اپنے مالی ذرائع تک دسترسی سے محروم کرنے اور اس کے اثاثے منجمد کرنے جیسے اقدامات کئے ہیں- دوسری جانب امریکی حکومت ان حکومتوں کے ساتھ کہ جو واقعی میں امریکی شہریوں کے قتل میں ملوث ہیں ان کے ساتھ نہ صرف انتہائی قریبی تعلقات رکھتی ہے بلکہ ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ سعودی عرب جیسی حکومتوں کے خلاف امریکی عدالتوں کی کاروائی نہ ہونے پائے۔  بہرصورت امریکیوں کی کوشش ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف میں ہونے والے فیصلے کی مخالفت کریں اور  ایران کی شکایت کے کیس کو ایجنڈے سے خارج کردیں کیوں کہ اس شکایت میں ایران کی کامیابی، امریکہ کے مقابلے میں اس کے قانونی موقف کے مزید مستحکم ہونے کا باعث بنے گی-  

ٹیگس