ایران مخالف نیا سناریو
پیرس کے مضافات میں دہشت گرد گروہ، ایم کے او، کے اجلاس پر حملے میں ملوث ہونے کے جھوٹے الزام میں بیلجیم میں ایک ایرانی سفارت کار کی گرفتاری ایران مخالف ایک نیا سناریو ہے۔
تین مہینہ پہلے پیرس کے مضافات میں ہونے والے، ایم کے او، کے سالانہ اجلاس کے بعد جب اس گروہ اور اس کے حامیوں کے لئے کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو ایران کے خلاف ایک نئے سناریو کا عمل شروع ہوگیا جو فی الحال جرمنی کے حکام کے ذریعہ ایرانی سفارت کار کو بیلجیم کی تحویل میں دیئے جانے اور اس سلسلہ میں ایران کی وزارت اطلاعات کے اثاثے منجمد کرنے کی فرانسیسی دھمکی پر منتج ہوا ہے۔ اس سناریو کا آغاز اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر جناب ڈاکٹر حسن روحانی کے یورپ کے دو ممالک، سوئیٹزرلینڈ اور آسٹریا، کے دورہ کے موقع پر ہوا اور اس کا مقصد اس دورے اور ایران اور یورپ کے تعلقات کو متاثر کرنا تھا۔ یہ دورہ ایسے حالات میں انجام پایا کہ امریکہ جامع ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد مختلف حربوں کے ذریعہ ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُسی وقت ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا تھا کہ ”ایران واضح طور پر تشدد اور دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے چاہے وہ کہیں پر بھی ہو اور ایم کے او کی تخریبی کارروائیوں اور شیطانی منصوبوں سے پردہ اٹھانے میں ایران تمام فریقوں کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔“
یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ایم کے او ایک دہشت گرد اور انقلاب مخالف گروہ ہے اور اس گروہ کی ہمیشہ یورپی ممالک سمیت دیگر ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش رہی ہے۔ دریں اثنا، تشدد اور دہشت گردی کے سلسلہ میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی شفاف اور واضح پالیسی کے پیش نظر ایم کے او سے مقابلے میں کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ یورپی ممالک ہیں جنہیں اس سلسلہ میں واضح پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اُنِہیں کو اس بات کے لئے جوابدہ ہونا ہے کہ یورپی ممالک میں ایم کے او کے دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور فرانس میں ان کا قیام دہشت گردی سے مقابلے سے متعلق ان ممالک کی اعلانیہ اور عملی پالیسی سے کس حد تک مطابقت رکھتا ہے؟
پیرس کے مضافات میں دہشت گرد گروہ ایم کے او کے اِس سال کے سالانہ اجلاس میں کرایہ کے مہمانوں اور مقررین نیز امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے وکیل روڈی جولیانی کی شرکت اُس دہشت گردی کی حمایت کا ثبوت ہے جس نے 17 ہزار ایرانیوں کو شہید کیا ہے۔
امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈینیل سیرور پیرس کے مضافات میں ہونے والے ایم کے او کے سالانہ اجلاس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ”جو بھی اس گروہ کو جانتا ہے اسے یہ پتہ ہے کہ ایم کے او ایک دہشت گرد گروہ ہے اور اس کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہئے۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے سیکورٹی اور فوجی ادارے ایم کے او کے ساتھ کام کرتے ہیں، بنا بریں، یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ اس دہشت گرد گروہ کو پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟“
دریں اثنا، حقائق کو بدلنے اور بے بنیاد الزامات لگانے کی کوشش ایران اور یورپ تعلقات کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں یورپی حکام سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں ہوش مندی سے کام لیں گے تاکہ وہ منصوبہ بند سازشوں کا شکار نہ ہوں۔
اسی سلسلہ میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بدھ کے روز تہران میں جرمنی کے سفیر کو طلب کرنے کی خبر دی اور کہا کہ ”ایرانی سفارت کار کو تحویل میں دیئے جانے اور ان کی گرفتاری پر ایران کے احتجاج سے آگاہ کیا گیا اور تاکید کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ ایران اور یورپ کے تعلقات کے دشمنوں کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فرانس میں مقیم دہشت گرد گروہ ایم کے او کے ذریعہ یہ سازش رچی گئی ہے۔“
امریکہ اور امریکی حلقوں کی طرف سے ایم کے او کی حمایت کے پیش نظر من گھڑت سناریو بنا کر ایران کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش مذکورہ حلقوں کے ایجنڈے میں شامل ہے جس کا مقصد ایران اور یورپی ممالک کے تعلقات کو متاثر کرنا ہے لیکن اس کوشش کو ناکام بنانے کے لئے یورپ کی ہوش مندی کی ضرورت ہے۔