شام میں ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات پر روس کی تاکید
امریکہ شام میں بدامنی اور داخلی جنگ شروع ہونے کے بعد اس ملک کی قانونی حکومت کو گرانے کے مقصد سے اپنے عرب اور مغربی اتحادیوں کے ہمراہ، دہشت گردوں کی حمایت کرنے میں پیش پیش رہا ہے۔
بعد کے مرحلے میں بھی 2014 سے امریکی قیادت میں ، داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد بھی ، داعش تکفیری دہشت گرد گروہ سے مقابلے کے بہانے وجود میں لایا گیا اور شام میں اس نے اپنی کاروائیوں کا آغاز کیا۔ اس اتحاد نے اب تک شامی شہریوں کے خلاف بہت زیادہ حملے کئے ہیں کہ جس میں شام کے بہت سے شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں-
موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس اتحاد کے حالیہ حملوں میں،کہ جو اس ملک میں شام کی قانونی حکومت کی اجازت کے بغیر موجود ہے، ممنوعہ فاسفورس بموں کا استعمال کیا ہے۔ امریکہ کی زیرکمان قائم نام نہاد بین الاقوامی اتحاد نے شام میں دیرالزور کے علاقے ہجین پر وائٹ فاسفورس بموں سے حملہ کیا ہے۔ شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر بھی ایسی تصاویر دکھائی گئی ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہجین پر وائٹ فاسفورس بموں سے حملہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل شام کی وزارت دفاع نے اعلان کیا تھا کہ آٹھ ستمبرکو امریکہ کے دو جنگی طیاروں نے ہجین پر کئی بار فاسفورس بموں سے حملہ کیا تھا۔
امریکہ کی سرکردگی میں قائم بین الاقوامی اتحاد نے اس سے قبل شہر رقہ پر اس قسم کی بمباری کا اعتراف کیا تھا۔ شہر رقہ پر فاسفورس بموں اور دیگر ممنوعہ ہتھیاروں سے کئے جانے والے حملے میں دسیوں شامی شہری شہید و زخمی اور رہائشی مکانات تباہ ہو گئے تھے۔ امریکہ کی جانب سے عراق و شام میں بارہا عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ داعش مخالف اتحاد کے اس غیر انسانی اور غیر قانونی اقدام پر روس نے منفی ردعمل ظاہر کیا ہے۔
کونسل آف رشین فیڈریشن کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ کانسٹینٹائن کوساچوف نے کہا ہے کہ ماسکو نے اقوام متحدہ اور کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی تنظیم سے اپیل کی ہے کہ وہ شام میں امریکی اتحاد کے توسط سے وائٹ فاسفورس بموں کے استعمال کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کرے۔ انہوں نے یہ بھی اپیل کی کہ کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کی تنظیم فوری طور پر شام میں امریکہ کے ذریعے فاسفورس بموں کے استعمال کے بارے میں حقیقت کو برملا کرے۔
امریکی قیادت میں داعش مخالف اتحاد کی فضائی کاروائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں اور اس کے اتحاد میں شامل ملکوں نے عملی طور پر، اپنے حملوں کے دوران عام شہریوں کی جانوں کے نقصان کے مسئلے سے بے توجہی برتا ہے- موجودہ شواہد اور ثبوت و دستاویزات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ان ہوائی حملوں میں داعش مخالف اتحاد نے خاص طور پر امریکی طیاروں نے، عام شہریوں کو جانی نقصان سے بچانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں کے لئے جس چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع ہے کہ جو ان حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہوئے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام کی حکومت نے بارہا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ شام میں امریکی اتحاد کے جرائم کا خاتمہ کرے۔ سیاسی ماہر شعیب بھمن کے بقول امریکی قیادت کے سائے میں اتحادی ممالک شام میں جو حملے کر رہے ہیں ان کا مقصد دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنا اور بشار اسد کی حکومت کو کمزور کرنا ہے۔
بنیادی طور پر شام میں داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کی صورت میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجی مداخلت، محض اس جنگ زدہ ملک کے مظلوم اور ستم دیدہ عوام کے رنج و غم میں اضافے اور انسانی جانوں کے مزید ضائع ہونے پر منتج ہوئی ہے-