سنچری ڈیل منصوبے کے دائرے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان خفیہ فوجی معاہدہ
عرب میڈیا نے خبردی ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل سے پانچ سو مرکاوا ٹینک خریدے ہیں جو سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان اب تک کا سب سے بڑا خفیہ فوجی معاہدہ ہے۔
عرب میڈیا نے خبردی ہے کہ سعودی عرب نے اسپین کی ایک کمپنی کی وساطت سے اسرائیل سے پانچ سو مرکاوا ٹینک خریدے ہیں۔ یہ ٹینک اسپین کے نام سے خریدے گئے ہیں، لیکن سعودی ولیعہد بن سلمان نے ان ٹینکوں کی خریداری کے لئے نقد رقم دی ہے اور یہ سارے ٹینک اسپین کی بحریہ کے ذریعے اور چھے مہینے کے عرصے میں سعودی عرب کی فوج کے حوالے کئے جائیں گے-
پروگرام کے مطابق اسپین کی اسی کمپنی کی وساطت سے صیہونی فوجی افسران، سعودی عرب کے فوجیوں کو مرکاوا ٹینکوں کو چلانے کی ٹریننگ دیں گے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ کچھ عرصہ قبل، سعودی عرب کے ایئرپورٹس کی سیکورٹی اس ملک کے شاہی فرمان کے مطابق اسرائیلی کمپنی جی فور ایس کے سپرد کی جاچکی ہے-
قطر کے اخبار الشرق نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ ریاض میں شاہی دیوان سے جاری ہونے والے ایک فرمان میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے ہوائی اڈوں کی سیکورٹی کے لیے جی فور ایس نامی غیر ملکی کمپنی کو منتخب کیا گیا ہے جس کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ سعودی ولی عہد کی جانب سے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگائے جانے کے اقدامات کے بعد مخالف گروہوں کے ممکنہ حملوں کے باعث، حکومت کو در پیش خطرات کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
ان حالات میں لبنان کی العہد ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، گذشتہ مہینوں کے دوران اسرائیلی حکام نےایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پچاس سال سے زائد عرصے تک انتظار کیا تاکہ محمد بن سلمان جیسا ہم پیمان اور اتحادی، سعودی عرب پر حکومت کرے۔ لبنان کی العہد ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں نے یہ بات، ایسے دشوارترین حالات اور وقت میں بیان کی ہے کہ یہ ملک، خاص طور پر اس ملک کے ولیعہد محمد بن سلمان کو سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے باعث سخت و دشوار حالات کا سامنا ہے-
درحقیقت بہت سی ایسی وجوہات ہیں کہ جس نے اسرائیل کو، موجودہ ولیعہد محمد بن سلمان کی حمایت اور مستقبل میں شاہ سلمان کے بعد، سعودی عرب کا زمام اقتدار ہاتھ میں لینے کے مقصد سے اس حمایت کو باقی رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ ان وجوہات کا مندرجہ ذیل صورتوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔ اول تو سنچری ڈیل سے موسوم منصوبے کے نفاذ کے لئے سعودی عرب کا نمایاں حمایتی موقف ہے، دوم عربوں اور فلسطینیوں کے مواقف میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے سعودیوں کی موثر پیہم سرگرمیاں ہیں، اور سوم امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی کے مسئلے پر سعودی عرب کی عدم مخالفت بلکہ اس کا ساتھ دیا جانا شامل ہے-
صیہونی حکومت کے ایک اخبار معاریو نے کچھ عرصہ قبل ریاض اور تل ابیب کے درمیان گہرے تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے تعلقات کو منظر عام پر لانے کا وقت آگیا ہے۔ اس اخبار نے صیہونی حکومت کو سعودی عرب کا خفیہ حامی و مددگار قرار دیا تھا اور اسرائیلی کابینہ کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خفیہ رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سعودی عرب کو اسرائیل کی شدید ضرورت ہے اور اس کے پیش نظر اب ان تعلقات کو عام کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس اخبار نے اسرائیلی حکام سے کہا ہے کہ اب انھیں سعودی حکام کی خفیہ ملاقاتوں کو چھپانا نہیں چاہیے۔ علاقے میں استقامت مخالف پالیسیوں میں اسرائیل اور سعودی عرب کی یکجہتی اور ان دونوں حکومتوں کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت نے صیہونی حکومت اور آل سعود کی ماہیت کو پہلے سے زیادہ آشکار کر دیا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان فوجی تعاون میں شدت ایسے میں آئی ہے کہ یہ دونوں حکومتیں علاقے میں بدامنی اور فتنہ انگیزی پھیلانے میں ایک سکے دو رخ کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں- اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے فوجی معاملات ایک ایسے وقت ہورہے ہیں جب اعداد و شمار کے مطابق صیہونی حکومت نے انیس سو سڑسٹھ سے دوہزار سترہ کے برسوں میں بیالیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور دسیوں ہزار کو زخمی اور بے گھر کیا ہے۔ ایسے میں ان دونوں حکومتوں کے درمیان فوجی تعاون کا مقصد، علاقے میں تشدد پسندانہ کاروائیوں اور تسلط پسندانہ اقدامات میں شدت لانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔