ایرانی حکام کو قتل کرنے کی سعودی ولیعہد کی سازش طشت از بام
سعودی ولیعہد محمد بن سلمان، دو سال سے زیادہ عرصے سے رشوت اور لالچ دے کر، خود کو ایک اصلاح پسند اور اہم سیاستداں متعارف کرانے کے درپے رہے ہیں -
لیکن اس وقت سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کے پر اسرار قتل کے انکشاف نے محمد بن سلمان کے ایک جارح شہزادہ ہونے کی تصویر عیاں کردی ہے کہ جو بہت زیادہ اپنے مخالفین کے قتل اور حکومتوں کا تختہ پلٹنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں دلچسپی رکھتا ہے- اس سلسلے میں انکشاف کرتے ہوئے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایران کے خلاف بن سلمان کی سازشوں کی خبردی ہے- نیویارک ٹائمز نے ایک دستاویزی رپورٹ میں لکھا ہے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے قریبی انٹلی جینس حکام نے گذشتہ سال تاجروں کے ایک گروہ کے ساتھ ملاقات کرکے نجی کمپنیوں کے توسط سے ایرانی حکام کو قتل کرنے کے بارے میں بات چیت کی تھی-
ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایرانی شخصیات کے قتل پرمبنی سعودی منصوبوں سے متعلق امریکی اخبار کی رپورٹ صحیح ہے۔ ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے ایرانی شخصیات اور حکام کے قتل کے لئے سعودی منصوبوں کے بارے میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمزکی رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ایران اس قسم کے منصوبوں سے باخبر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے باضابطہ طورپراعلان کیا ہے کہ جنگ کو ایرانی سرحدوں میں پہنچایا جائے گا جس کے بعد ایران کو خاص طور سے مشرقی سرحد میں مسلح اور دہشت گردانہ گروہوں کی سرگرمیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور داعش دہشت گرد گروہ نے دہشت گردانہ اقدامات منجملہ ایران کی پارلیمنٹ کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا۔ محمد جواد ظریف نے کہا کہ سعودی حکام، علاقے پراپنا تسلط جمانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایرانی شخصیات کے قتل سے متعلق سعودی منصوبوں کی خبریں، سعودی حکام کے پہلے کے اس طرح کے دعؤوں کو غلط ثابت کرتی ہیں کہ جن میں وہ الزام لگاتے تھے کہ ایران، سعودی عرب کے داخلی امور میں مداخلت کر رہا ہے۔
بن سلمان کے سازشی اقدامات، ریاض کی جارحانہ پالیسیوں کی حقیقی ماہیت کا آئینہ دار ہیں کہ جو سرکاری طور پر علاقے کی تقسیم کے منصوبے تیار کرنے اور فتنہ و جنگ کے مرکز میں تبدیل ہوگیا ہے۔ لیکن سعودی حکام اس حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں کہ وہ واشنگٹن اور تل ابیب میں سیاسی اداکاروں کا شکار بن چکے ہیں اور وہ ریاض کو، صرف اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک وسیلے سے زیادہ کچھ اورنہیں سمجھتے- یہ بات فراموش نہ کریں کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کی آشکارہ طور پر توہین کی تھی اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں سعودی عرب کی پوزیشن کو کم اہمیت ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آل سعود حکومت ہمارے لئے ایک دودھ دینے والی گائے کی مانند ہے کہ جب وہ ہمیں ڈالر اور سونا دینے کے قابل نہیں رہے گی، اس وقت ہم اس کو ذبح کرنے کا حکم جاری کر دیں گے یا پھر دوسروں سے کہیں گے کہ وہ یہ کام کریں، یا اس کام میں ان کی مدد کریں- ریاض کو، علاقے میں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف تک رسائی کے لئے ایک پل قرار دیا جا سکتا ہے لیکن یقینا یہ پل سعودی عرب کے لئے کامیاب پل نہیں ہوگا-
برطانوی جریدے اینڈیپنڈینٹ کے نامہ نگار اور تجزیہ کار "رابرٹ فیسک" ، محمد بن سلمان کے غیر حقیقی اور شرمندہ تعبیر نہ ہونے والے خوابوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ مشرق وسطی جس میں آج ہم زندگی گذار رہے ہیں چالیس سال قبل والے مشرق وسطی سے بہت زیادہ مختلف ہوچکاہے کہ جس میں ہم رپورٹ تیار کرنے کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس وقت امریکیوں کی واقعی اپنی ایک پالیسی ہوا کرتی تھی گرچہ وہ توہمات پر مبنی پالیسی ہوتی تھی لیکن اس وقت زوال پذیر سوویت یونین بھی طاقت کے توازن کے لئے اس پالیسی کا مقابلہ کر رہا تھا۔ رابرٹ فیسک نے مزید لکھا ہے: اب یہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو داعش کی شکست کا اعلان کر رہا ہے جبکہ پہلے امریکی صدر جارج بش تھے، جو اعلان کرتے تھے کہ اب مشن مکمل ہوگیا ہے۔
اس لئے محمد بن سلمان کا یہ بھی ایک توہم ہے کہ جو وہ امریکی اور اسرائیلی اہداف کی تکمیل کے مقصد سے، ایران اور علاقے کے لئے منصوبے تیار کر رہے ہیں اور جس سے ان کا مقصد ایران کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس سلسلے میں ظریف کا بیان واضح اور ایک طرح سے اسے خبردار کرنے کے لئے ہے۔ چنانچہ ایران کے وزیرخارجہ نے امید ظاہرکی ہے کہ عالمی برادری، قطر کے محاصرے، یمن پر جارحیت، لبنان کے وزیراعظم کو حراست میں رکھنے اور مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی واردات جیسے سعودی حکام کے جارحانہ اقدامات کے بعد، دنیا والوں کی آنکھیں کھل جائیں گی-