انڈونیشیا سے سعودی عرب کے سفیر کے اخراج کا مطالبہ
انڈونیشیا کی نہضت العلما نے، اس ملک سے سعودی عرب کے سفیر کو فوری نکالے جانے کا مطالبہ کیا ہے-
انڈونیشیا کی نہضت العلما نے، کہ جو اس ملک کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے، سعودی سفیر اسامہ بن محمد الشعیبی پر اس ملک کے امور میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے اسے فورا ملک سے نکالنے یا آل سعود کی جانب سے اسے واپس بلائے جانے کا مطالبہ کیا ہے- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی سفیر کو ملک سے نکالے جانے کے لئے انڈونیشیا کی نہضت العلما کی درخواست کا سبب، آل سعود کا بدترین سلوک اور اس ملک میں موجود سعودی ملازمین کا بدترین رویہ ہے- سعودی عرب میں کام کرنے والے بعض انڈونیشیائی باشندوں کی گردن مارے جانے کی خبریں شائع ہونے کے بعد ، انڈونیشیا کےعوام میں ماضی سے زیادہ آل سعود حکام سے نفرت و بیزاری اور غصے میں اضافہ ہوگیا ہے- اگرچہ انڈونیشیا کے صدر جوکوویڈوڈو نے بھی آل سعود کے اس جارحانہ اقدام پر ردعمل ظاہر کیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے لیکن انڈونیشیا کی نہضت العلما کے نقطہ نگاہ سے یہ کافی نہیں ہے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ سعودی سفیر کو ملک سے نکال کر، بیرون ملک رہنے والے انڈونیشیائی باشندوں کی جان اور حیثیت کا تحفظ کرے-
اسلامی مسائل کے ماہر سید علی واصف کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے قتل عام میں سعودی عرب کے اقدامات، انسانیت کے خلاف جرم شمار ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کا شبہ بھی نہیں ہے۔ حج کے زمانے میں رونما ہونے والے واقعات اور یمن میں مسلمانوں کا قتل عام ، انسانیت کے خلاف آل سعود کے جرائم کا ایک حصہ ہیں-
انڈونیشیا کی نہضت العلما، دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش اور سلفی گروہوں کے افکار و نظریات کی سختی سے مخالف ہے اور وہ ادیان کے درمیان قربت پیدا کرنے اور اسلامی فرقوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی اور رواداری پر یقین رکھتی ہے- یہ نظریات، وہابیت کے ان منحرف اور گمراہ افکار سے مکمل طور پر مخالف ہیں کہ جن کو سعودی عرب کے حکام مالی امداد کے ذریعے توسیع دینے کے درپے ہیں- نہضت العلما ، اس ملک کے دینی و مذہبی حلقوں کے علاوہ، مدارس، اسپتالوں اور اسی طرح مختلف گروہوں کو منظم کرنے جیسی سرگرمیاں انجام دے کر انڈونیشیا میں بہت زیادہ اثر و رسوخ کی حامل ہے- اسی سبب سے جکارتہ کی حکومت کو انڈونیشیا میں امن کے عمل کو مستحکم کرنے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے نہضت العلما کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اسی سبب سے انڈونیشیا کی حکومت سے سعودی سفیر کو نکالے جانے کی نہضت العلما کی درخواست سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انڈونیشیا کے علما کو، اس ملک میں اعلی سطح پر وہابیت کی سرگرمیوں اور اس کو فروغ دینے میں سعودی سفارتخانے کی کوششوں کے تعلق سے تشویش لاحق ہے-
جنوب مشرقی ایشیا کے مسائل کے ماہر کریس چیپلین Chris chiplin کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے گزشتہ چند عشروں کے دوران مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے کوشش کی ہے کہ انڈونیشیا کی ثقافت اور مذہب میں اثر و رسوخ پیدا کرے- آل سعود کے اقدامات اس ملک میں مکمل طور پر بامقصد اور ٹارگیٹیڈ ہیں- کیوں کہ سعودی حکام کا خیال ہے کہ انڈونیشیا میں سعودی عرب کے ثقافتی وسائل کے تیزی سے فروغ اور اس کی توسیع کا امکان پایا جاتا ہے۔ اسی مسئلے نے انڈونیشیا کے علما کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے-
بہر صورت یمن، شام اورعراق کے خلاف محمد بن سلمان کی بربریت اور وحشیانہ اقدامات نیز ٹارگٹ کلنگ کے مقصد سے سرکاری دہشت گردی ، مسلمانان عالم خاص طور پر انڈونشیا کے مسلمانوں میں غیض و غضب اور نفرت کا باعث بنی ہے اور سعودی سفیر کو ملک سے نکالنے کے لئے حکومت سے نہضت العلما کامطالبہ بھی انڈونیشیا کےعوام کی آل سعود سے بہت زیادہ ناراضگی پر دلیل ہے اور اس امر کے پیش نظر کہ انڈونیشیا کے مذہبی و دینی پروگراموں کو اس ملک کی نہضت العلما منظم و مرتب کرتی ہے اس لئے انڈونیشیا کے عوام کو توقع ہے کہ وہ اعلی ترین دینی سطح پر سعودی حکام کے خلاف موقف اپنائے-