ٹرمپ کا شام سے پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ !
دوہزار گیارہ میں شام کا بحران شروع ہونے کے ساتھ ہی امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر مغربی - عربی اتحاد کے مجموعی ہدف کے حصول کے لئے شام کی قانونی حکومت کا تختہ الٹ کر استقامت کے محور کو توڑنے کے لئے اپنی پوری توجہ مختلف طرح کے مسلح دہشتگرد گرد گروہوں کی ہمہ گیر مدد پر مرکوز کر دی تاکہ بزعم خود ان گروہوں کے ذریعے شام کی بشار اسد حکومت کا تختہ الٹنے کا مقصد حاصل کر سکیں لیکن نہ صرف وہ اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس وقت شام میں نہایت کمزور پوزیشن کے حامل ہیں-
درحقیقت واشنگٹن ، شام میں ایک مغرب پسند حکومت برسرکار لانے کی کوششوں کو ناکام ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے اور دوسری جانب واشنگٹن نے دوہزار چودہ کے وسط سے داعش دہشتگرد گروہ کے خلاف جنگ کے بہانے اس کے خلاف نام نہاد عالمی اتحاد تشکیل دیا البتہ امریکہ کے فضائی حملوں میں عام شہریوں کا بھاری جانی نقصان ہوا اور پھر بعد کے مرحلے میں شام کے شمال اور شمال مشرقی علاقوں میں امریکی فوجی تعینات ہوگئے- اس وقت شام میں امریکہ کے تقریبا دوہزار فوجی موجود ہیں جن میں اکثراسپیشل آپریشنل فورس سے تعلق رکھتے ہیں اور شام کی ڈیموکریٹک فورس کے نام سے موسوم عرب نیم فوجیوں اور کردوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں-
امریکی صدر ٹرمپ نے کہ جو ہنگامی و غیر متوقع فیصلے کرنے میں شہرت رکھتے ہیں بدھ کے دن اچانک اعلان کیا کہ وہ امریکی فوجیوں کو شام سے باہر نکال رہے ہیں-
ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ہم نے شام میں داعش کو شکست دے دی اور یہی وہاں ہماری موجودگی کی واحد وجہ تھی - ٹرمپ نے ایک اور ٹویئٹ میں لکھا کہ داعش کے خلاف جنگ میں تاریخی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم اپنے فوجیوں کو شام سے وطن واپس بلا لیں-
اس کے باوجود داعش کو شکست دینے کے ٹرمپ کے دعوے اور شام سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے ان کے فیصلے کا امریکہ کے داخلی حلقوں اور اس کے اتحادیوں نے خیرمقدم نہیں کیا ہے- چنانچہ ریپبلکن سینیٹر لینڈسی گراہم نے شام سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کو ایک غلطی قرار دیا ہے- آلاباما یونیورسٹی کے پروفیسرنادر انتصار کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلہ یا بہتر لفظوں میں یوں کہوں کہ خود ٹرمپ کا یہ فیصلہ موجودہ وقت میں پوری طرح غیرمتوقع اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کے ڈھانچے پر ایک شاک ہے-
شام سے امریکی فوجیوں کو باہر نکالنے کے ٹرمپ کے فیصلے کا مختلف پہلؤوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے- سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک ناقابل پیشگوئی شخصیت کے حامل ہیں اور اپنے دورصدارت میں وہ چند بار غیرمتوقع فیصلے کر چکے ہیں ان میں ایک شمالی کوریا کے رہنما کیم جونگ اون کے ساتھ براہ راست مذاکرات اور ان سے سمجھوتے کا اعلان تھا-البتہ یہ بھی مدنظررکھنا چاہئے کہ ٹرمپ ہمیشہ اپنے غیرمتوقع فیصلوں پر عمل نہیں کرتے اور شدید مخالفت ہونے یا یہ سمجھنے کے بعد کہ فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اپنے موقف سے پسپائی اختیار کر لیتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحدوں پر دیوار کھڑی کرنے کے فیصلے سے اس وقت پیچھے ہٹ گئے جب کانگریس نے اس کام کے لئے ان کی پانچ ارب ڈالر کے بجٹ کی درخواست مسترد کردی - لہذا شام کے سلسلے میں بھی انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ وہ پنٹاگون ، کانگریس ، صیہونی حکومت اور برطانیہ جیسے بعض امریکی اتحادیوں کی شدید مخالفت کے بعد اپنے فیصلے کو تبدیل کرتے ہیں یا ان مخالفتوں کے باوجود اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہناتے ہیں-
ٹرمپ کے فیصلے کی ایک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ امریکی اسٹراٹیجسٹوں کے موقف کے مطابق واشنگٹن مستقبل قریب میں شام میں بھاری قیمت چکائے بغیر طاقت کا توازن بدلنے میں کامیاب نہیں ہوگا اور اس ملک سے نکلنا واشنگٹن کے مفاد میں ہوگا- ایک اور دلیل ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی کردوں کے خلاف مشرقی فرات میں ترک فوج اور اس کے اتحادیوں کی آئندہ کارروائی کی دھمکی بھی ہوسکتی ہے کہ جس کے بعد ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ ترک اور امریکی فوجیوں کے درمیان کسی طرح کی جھڑپ سے بچنے اور انقرہ و واشنگٹن کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہونے سے روکنے کے لئے اپنے فوجیوں کو شام سے باہر نکال لینا چاہئے-
بہرحال شام سے امریکا کے ممکنہ انخلا کی وجوہات سے قطع نظر اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ دمشق ، شام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو بارہا غیرقانونی اورغاصبانہ قبضے کے مترادف اعلان اور شام سے ان فوجیوں کے باہر نکلنے پر تاکید کرتا رہا ہے-