Jan ۱۶, ۲۰۱۹ ۱۵:۵۳ Asia/Tehran
  • ایران اور یورپی ملکوں کے درمیان ٹھوس مذاکرات کی ضرورت پر تاکید

اسلامی جمہوریہ ایران اور یورپی ملکوں کے درمیان، آئندہ دنوں میں تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے ٹھوس مذاکرات انجام پانے چاہیئں-

یہ بات اسلامی جمہوریہ ایران کی اسٹریٹیجک کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر سید کمال خرازی نے منگل کو، تہران میں بین الاقوامی تنازعات کے حل کے امور میں سرگرم، ناروے کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ " نورف " کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں یورپ کے سلسلے میں خطرناک ہیں-

ڈاکٹر خرازی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایٹمی معاہدے سے ایران کے نکلنے اور علاقے اور یورپ کی سلامتی پر اس کے پڑنے والے منفی اثرات و نتائج ، یورپی حکومتوں کے فائدے میں نہیں ہوں گے کہا کہ تہران کو توقع تھی کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد یورپی یونین اس معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے کوئی اقدام عمل میں لائے گی لیکن اس نے اب تک واشنگٹن کے دباؤ کے تحت کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ اور اس کا انتہائی برا اثر ایرانی قوم پر پڑا ہے کہ جس نے ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدے کی پابندی کی ہے- یورپی یونین بظاہر اس سلسلے میں کوئی واضح اور ٹھوس فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔ ایک طرف تو اس کی کوشش ہے کہ علاقے میں اہم کھلاڑی کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرے تو دوسری جانب اپنی بنیادی خارجہ پالیسی کے طور پر، امریکہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات محفوظ رکھنے پر مجبور ہے-

 ایران کی اسٹریٹیجک کونسل برائے خارجہ تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر سید کمال خرازی کے ساتھ ملاقات میں ناروے کے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ  "نورف" کے ڈائریکٹر ھنریک ٹون کے اظہار خیالات بھی اسی مسئلے کی تائید کرتے ہیں- ہنریک ٹون نے یورپی کمپنیوں پر امریکہ کے سخت دباؤ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی ملکوں کی داخلی مشکلات نے، یورپی حکومتوں کی پالیسیوں اور صحیح پالیسیاں اختیار کرنے پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں-

البتہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں یورپ کے فیصلے کرنے میں لیت و لعل سے کام لینےکی اس طرح توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ جب کسی بین الاقوامی معاہدے کی ایک فریق خلاف ورزی کرے تو عالمی برادری پر یہ فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف ردعمل ظاہر کرے- ایٹمی معاہدے سے امریکہ کا یکطرفہ طور پر نکل جانا  بطور کامل  بین الاقوامی اقدار اور سلامتی کونسل کی قراداد کی خلاف ورزی ہے- امریکہ نے اپنے اس یکطرفہ اقدام سے یورپی یونین کے عالمی کردار کو چیلنج سے دوچار کردیا ہے۔ کیوں کہ اس یونین نے ایٹمی معاہدے کے حصول میں اپنا اہم رول ادا کیا ہے-

لوبلاگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بھی اس سلسلے میں ایک تجزیے میں ایٹمی معاہدے کے ختم ہوجانے کے نتائج کے بارے میں یورپی یونین کو خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت یورپ، ایران کے مسئلے اور ایٹمی معاہدے کو، غیرملکی پالیسی اور سلامتی کے مسائل میں اپنی شراکت کا ایک ماڈل سمجھ رہا ہے- یورپ نے اس سمجھوتے کے حصول کے لئے کوششیں کی ہیں تاکہ عالمی سطح پرایک سیاسی بازیگر کی حیثیت سے، ماضی سے زیادہ اپنی پوزیشن کو مضبوط کرے- ایران کے ایٹمی سمجھوتے نے یورپی ملکوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کے سامنے جھکنے کی صورت میں وہ اپنی خودمختاری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے- 

یورپی یونین اس بات کی مدعی ہے کہ اس نے امریکی پابندیوں کے مقابلے میں تمام یورپی بینکوں اور کمپنیوں کو ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کو کہا ہے۔ اس کے باوجود توقع کے مطابق نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے-

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے پیر کے روز کہا کہ یورپ ایران کے لئے مخصوص مالیاتی نظام ایس پی وی کو اب تک نافذ نہیں کر سکا ہے جس پر ایران نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ اس میکنزم کے نفاذ کا خواہاں ہے مگر یہ منصوبہ اب تک تاخیر کا شکار ہے لہذا ہم یورپی ممالک کے فیصلوں کا انتظار نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، یورپ کے ساتھ جوہری معاہدے اور مخصوص مالیاتی میکنزم پر مذاکرات کر رہا ہے اور اس میں غیرمتعلقہ معاملات کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ 

بہرام قاسمی نے مزید کہا کہ امریکہ کے نا تجربے کار حکمرانوں نے ایرانی عوام سے دشمنی کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور وہ ایران کے خارجہ تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں جسکا مقصد ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپ کے متفقہ موقف کو کمزور کرنا ہے۔

یورپی یونین کو چاہئے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرے کہ بریسلز اور واشنگٹن کے درمیان مفادات اور اقدار کا ٹکراؤ ہے اور یہ مسئلہ ایران کےایٹمی سمجھوتے کے دائرے میں کھل کر سامنے آیا ہے- یورپی یونین کو چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی و مالی استقلال و خودمختاری کے تحفظ کی کوشش کرے- واضح سی بات ہے کہ ایسی صورت میں کہ جب ایٹمی معاہدہ ختم ہوجائے گا تو اس میں شکست صرف ایران کی ہی نہیں ہوگی-

ٹیگس