سعودی عرب میں آل سعود کی جیلیں، مخالفین کی قتل گاہیں
ایک سعودی شہری کہ جو صوبہ الشرقیہ کے شہر قطیف میں ایک پرامن مظاہرے میں گرفتار کیا گیا تھا، اس ملک کے الدمام جیل میں شدید ایذائیں پہنچائے جانے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگیا-
یہ سعودی شہری کہ جس کا نام نائف احمد العمران ہے 2011 سے الدمام کے جیل میں قید کی صعوبتیں برداشت کر رہا تھا اور اسے اس جیل میں سخت ترین ایذائیں دی جاتی تھیں- گذشتہ نومبر کے مہینے میں بھی سعودی عرب کے نامہ نگار اور مصنف ترکی بن عبدالعزیز الجاسر کو بھی کسی جیل میں شدید ایذائیں دے کر قتل کئے جانے کی خبر منظر عام پر آئی تھی- سعودی عرب میں مخالفین کو سرکوب کرنے کا عمل پوری شدت کے ساتھ جاری ہے اور اس ملک میں مخالفین کے قتل عام ، اور وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی میں اضافہ ہوا ہے-
العہد ویب سائٹ نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب کے جیلوں میں سیاسی قیدیوں پر، مختلف طریقوں سے وحشیانہ طور پر شکنجے کسے جاتے ہیں اور انہیں سخت ایذائیں دی جاتی ہیں- بعض قیدیوں کو یہ شکنجے اورایذائیں، سعودی بادشاہ کے سابق مشیر اور سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القحطانی کی نگرانی میں پہنچائی گئی ہیں- سعودی مخالفین کو قتل کرنے کا یہ سلسلہ گذشتہ مہینوں کے دوران ایسی حالت میں جاری رہا ہے کہ سعودی مخالف صحافی جمال خاشقجی کو، دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کی عمارت میں بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا- مخالفین کے خلاف آل سعود کے تشدد کی نئی لہر سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ سعودی حکام، نہ صرف یہ کہ اپنے مخالف اور ناقدین کی باتوں کے متحمل ہو رہے ہیں بلکہ ان کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے قتل بھی کر رہے ہیں- آل سعود کے لئے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف جارحیت، جیل میں انجام دے یا کسی ملک کے قونصل خانے میں۔ آل سعود ، کہ جو اپنے ظلم و ستم کی ساری حدیں پار کر چکی ہے، عملی طور پر انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کے ایک اہم مرکز میں تبدیل ہوگئی ہے- مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ آل سعود نے تیس ہزار سے زائد سرگرم کارکنوں کو خوفناک جیلوں میں قیدی بنا رکھا ہے ایسے حالات میں آل سعود حکومت اس کوشش میں ہے کہ اپنی سرکچلنے والی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے، کسی طرح سے انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر انجام پانے والی خلاف ورزیوں اور عوام کے سیاسی حقوق کے مکمل پامال ہونے کی جانب سے لوگوں کی توجہ ہٹائے-
اس مقصد کے لئے آل سعود نے عورتوں کی شہری آزادایوں کے تعلق سے نمائشی اصلاحات انجام دینے اور عورتوں کے حقوق کی پامالی پر بظاہر توجہ دینے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے- یہ ایسی حالت میں ہے کہ ان نمائشی اصلاحات کے پس پردہ ، آل سعود مخالفین کو مزید سرکوب کرنے اور سعودی عوام کے سیاسی حقوق کی مزید خلاف ورزی کے درپے ہے- آل سعود کے جرائم کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے لچکدار موقف نے اس جارح حکومت کو سعودی شہریوں کے خلاف حد سے زیادہ تشدد کرنے اور علاقے کے ملکوں منجملہ یمن کے خلاف اس کو اپنے ہولناک جرائم جاری رکھنے میں گستاخ بنادیا ہے-اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک رکن کی حیثیت سے سعودی عرب کا دوبارہ انتخاب اس امر کا غماز ہے کہ اقوام متحدہ نے سعودی عرب کے لئے گوشہ عافیت فراہم کردیا ہے اور سعودی عرب ان ہی حمایتوں کے سائے میں اور کسی بھی عالمی ادارے کی جانب سے بازپرس کا خوف کھائے بغیر اپنے جنون آمیز اقدامات اور ہولناک جرائم میں شدت لایا ہے-
سعودی عرب کے معاشرے پر ایک نگاہ ڈالنے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ سلفی تعلیمات کی بنیاد پر قائم استبدادی حکومت کے حامل اس ملک کو سماجی بدامنی سمیت بڑھتے ہوئے داخلی بحرانوں کا سامنا ہے اور وہابی حکومت کے زیر سایہ سعودی معاشرہ عملی طور پر ایک پر تشدد اور مجرم معاشرے میں تبدیل ہو گیا ہے- بلاشبہ ، سعودی عرب پر آل سعود کی حکومت کا نتیجہ اس ملک کے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی بحرانوں میں مبتلا ہو جانے کے سوا کچھ نہیں رہا ہے اور اس طرح کے ماحول میں مختلف اعداد و شمار، شہری حقوق سے عوام کی محرومی اور جرم و جرائم میں بڑی تعداد میں اضافے سمیت تمام میدانوں میں اس ملک کے بدتر سماجی حالات کی عکاسی کرتے ہیں- بلاشبہ ، سعودی عرب میں سیاسی اور اقتصادی بحران کہ جو آل سعود کی خراب کارکردگی کا نتیجہ رہا ہے ، اس ملک میں سماجی بحران کا باعث بنا ہے-
سعودی عرب پر آل سعود کی بدعنوان حکمرانی کا نتیجہ ، مغرب کے آلہ کار خاندان کے زیر کنٹرول اس معاشرے کے زوال اور دور جہالت کی جانب سفر کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے- اور علاقے پر اس طرح کی وابستہ پٹھو حکومت کے اثرات صرف بےچینی ، بدامنی اور منی سانحے سمیت مختلف حادثات کی صورت میں ہی برآمد ہوئے ہیں -