ونزوئلا کے خلاف فوجی دھمکیوں سے امریکہ کی پسپائی
ایسے میں جبکہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی ممالک بدستور ونزوئلا کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے درپے ہیں، ونزوئلا کے قانونی صدر نیکلس مادورو اور ان کے ساتھ عوام کی استقامت و پائیداری اس بات کا باعث بنی ہےکہ وہ نہ صرف مادورو کو برطرف کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل کرسکیں بلکہ اپنی بعض پالیسیوں سے بھی پسپائی اختیار کرلیں-
جیسا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ امریکہ فی الحال ونزوئلا کے خلاف فوجی کاروائی کا ارادہ نہیں رکھتا ہے- بولٹن نے اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ " تمام آپشنز میز پر موجود ہیں" لیکن یہ بھی کہا کہ واشنگٹن کا مقصد، ونزوئلا میں پرامن طریقے سے اقتدار کو منتقل کرنا ہے- بولٹن کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے کہ امریکہ کی فوجی مداخلت کے مسئلے پر بہت زیادہ ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے- روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ نے ونزوئلا کے تعلق سے تمام عالمی معیارات کی خلاف ورزی کی ہے کہا کہ ماسکو ہر اس اقدام کو انجام دے گا کہ جس کی ونزوئلا کی قانونی حکومت کو ضرورت ہوگی-
قابل ذکر ہے کہ وینزویلا میں حزب اختلاف کے رہنما خوآن گوآئیڈو نے تئیس جنوری کو غیرقانونی طریقے سے اپنی صدارت کا اعلان کیا تھا جن کی امریکہ اور یورپ، بھرپور حمایت کر رہے ہیں، اور وہ اس ملک میں سیاسی کودتا انجام دینے کے درپے ہیں- دائیں بازو کے ہاتھ سے تیل کی آمدنی کو خارج کرنا اور امریکہ کی تابع ایک دائیں بازو کی حکومت کو برسر اقتدار لانا نیز لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کے محور کو کمزور کرنا ، وہ مقاصد ہیں کہ جن کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک، مادورو کو سرنگوں کرنے کی کوششیں انجام دے رہے ہیں- اسی سلسلے میں واشنگٹن مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے ونزوئلا پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے درپے ہے- اس کے باوجود اب تک واشنگٹن کی جانب سے عائد کی گئی پابندیاں اور دھمکیاں کارگر ثابت نہیں ہوسکی ہیں-
ونزوئلا کے عوام کی ایک بڑی تعداد اور اسی طرح فوج کی حمایت کے سبب مادورو اور ان کی دائیں بازو کی حکومت، تمام تر کشیدگیوں اور دباؤ کے باوجود واشنگٹن اور اس کے ملکی و غیرملکی اتحادیوں کے اقدامات کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے- گذشتہ دنوں کے دوران ونزوئلا کے مختلف شہروں کے عوام نے مادورو کی حمایت میں مظاہرے کئے ہیں اسی طرح تیل کی وزارت کے ملازمین نے بھی مادورو کی حمایت میں مظاہرے کئے ہیں-
واضح رہے کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں وینزویلا کے عوام نے بھاری اکثریت سے صدر نکولس مادورو کو ملک کا صدر منتخب کیا تھا۔ امریکہ، اسرائیل، یورپی ممالک اور لاطینی امریکہ کے بعض ملکوں کی جانب سے مخالف رہنما کی غیر قانونی صدارت کی حمایت کے بر خلاف، روس، ایران، چین، ترکی، میکسیکو اور دنیا کے بیشتر ملکوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ نکولس مادورو کو ہی وینزویلا کا منتخب اور قانونی صدر تسلیم کرتے ہیں۔
روسی صدر نے ماسکو میں ترک ہم منصب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکا وینزویلا میں اپوزیشن کی پشت پناہی چھوڑ دے، امریکا کی جانب سے کسی بھی قسم کی ممکنہ فوجی مداخلت تباہ کن ہو گی۔ ونزوئلا کے صدر نکولس مادورو نے فوج کو، امریکہ اور حکومت مخالف رہنما خوان گوآئیڈو کی جانب سے عوام کو شورش پر اکسانے والے بیانات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازمی تدابیر اپنانے کا حکم دیا ہے۔ صدر مادورو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ دباؤ اور پابندیوں کے ذریعے وینزویلا کے تیل اور قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وینیز ویلا کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہی امریکہ کا اہم ترین مقصد ہے۔ صدر مادورو نے کہا کہ وینزویلا میں دنیا کے سب سے بڑے اور تسلیم شدہ تیل کے ذخائر ہیں جبکہ یہ ملک گیس کے ذخائر کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ وینیزویلا کے صدر نے کہا کہ ان کے ملک میں ہیرے کی بڑی بڑی کانیں، بھرپور آبی اور دھاتی ذخائر پائے جاتے ہیں اور امریکہ دونوں ہاتھوں سے انہیں لوٹنا چاہتا ہے۔ موجودہ صدر مادورو نے امریکا پر تختہ الٹنے کی سازش کا الزام لگایا۔ وینزویلا کے صدر نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی صدر نے مجھے مافیا کے ذریعے مارنے کا حکم دے رکھا ہے۔
فرانس کے صدر میکرون نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ وینزویلا میں آٹھ روز کے اندر نئے انتخابات نہ کرائے گئے تووہ اپوزیشن رہنما گوائیڈو کو صدر تسلیم کر لیں گے۔ جرمنی اور اسپین نے بھی فرانسیسی صدر کی حمایت کی تھی۔ تاہم وینزویلا کے صدراپنے موقف پر ڈٹ گئےاور 8 دن میں الیکشن کرانے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے یورپی ممالک کی جانب سے آٹھ روز میں الیکشن کرانے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئندہ انتخابات دو ہزار پچیس میں منعقد ہونگے۔ نکولس مادورو کا کہنا تھا کہ یورپ کو ایسے مطالبات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وینزویلا یورپ کا حصہ نہیں، ان کا مطالبہ بے کار ہے۔
اگرچہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی بدستور ونزوئلا میں حکومت کا تختہ پلٹنے کے درپے ہیں لیکن ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ واشنگٹن کی مداخلت پسندانہ پالیسیاں ونزوئلا میں شکست پر منتج ہوئی ہیں- ونزوئلا کے عوام ، فوج اور اس ملک تیل کے شعبے کے ملازمین، بدستور مادورو اور سامراج مخالف اقدار کے وفادار ہیں اور بہت سے ممالک نے بھی مادورو کی حمایت کی ہے- ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ امریکی اقدامات کے خلاف رائے عامہ کا دباؤ اس بات کا باعث بنا ہے کہ امریکہ، ونزوئلا کے خلاف فوجی آپشن کے استعمال کے تعلق سے اپنی دھمکیوں سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے-