Feb ۱۳, ۲۰۱۹ ۱۵:۱۱ Asia/Tehran
  • وارسا اجلاس ، واشنگٹن کی ایران مخالف ناکام کوشش

امریکہ آج تیرہ فروری سے، پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں، مشرق وسطی میں نام نہاد امن و سلامتی کے زیر عنوان دو روزہ اجلاس کا انعقاد کر رہا ہے-واشنگٹن یہ دعوی کر رہا ہے کہ اس نے اس اجلاس میں شرکت کے لئے ستر ملکوں کو دعوت دی ہے-

وارسا اجلاس میں دسیوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی شرکت کے بارے میں امریکی دعوے کے باوجود بہت سی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گی-

واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیؤ نے ایرانو فوبیا کی مہم کے تحت امریکی کوششوں کے دائرے میں گیارہ جنوری کو اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن تیرہ اور چودہ فروری کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ایران مخالف اجلاس تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد ، ایران کے علاقائی اثر و رسوخ سےمقابلے پر تاکید کرتے ہوئے مشرق وسطی میں نام نہاد امن و استحکام کو تقویت دینا ہے- پامپئو نے کہا تھا کہ یہ اجلاس سب سے زیادہ ایران پر مرکوز ہوگا- امریکی حکام اس گمان میں ہیں کہ وہ اس اجلاس میں کچھ ملکوں کو اکٹھا کرکے، ایران کے خلاف ایک بین الاقوامی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں- امریکہ کا اصلی ہدف و مقصد اس اجلاس میں، علاقے میں ایران کی موجودگی کے خلاف فضا ہموار کرنا ہے-

یہ ایسے میں ہے اس اجلاس میں شرکت کے تعلق سے گروپ فور پلس ون ممالک نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے ان ممالک کے اس سرد ردعمل سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ واشنگٹن کو اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں بہت زیادہ رکاوٹوں کا سامنا ہے- روس نے مشرق وسطی میں اہم رول ادا کرنے والے ملک کی حیثیت سے اس اجلاس کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اسے ایٹمی معاہدے کو شکست سے دوچار کرنے کی جانب ایک قدم قرار دیا ہے-  بڑے یورپی ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی نچلی سطح پر اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں- جرمنی کے وزیر خارجہ ہایکو ماس نے کہا ہے کہ وہ  ایران مخالف وارسا اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے اور ان کی جگہ اس کانفرنس میں وزارت خارجہ کا کوئی عہدیدار شرکت کرے گا- اس سے قبل بھی بعض یورپی حکام منجملہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گی اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے-

بعض یورپی ملکوں کی جانب سے وارسا اجلاس میں وزرا کی سطح پر عدم شرکت، بریسلز اور واشنگٹن کے درمیان خلیج گہری ہونے کی غماز ہے- اس بنا پر ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ اجلاس بہت سرد ماحول میں منعقد ہوگا اور امریکہ اپنے ایران مخالف اہداف کو حاصل نہیں کرسکے گا-

اس اجلاس کے خلاف تنقیدوں میں اضافہ اس بات کا باعث بنا ہےکہ امریکی وزرات خارجہ نے کچھ دنوں قبل یوٹرن لیتے ہوئے اس اجلاس کے عنوان کو تبدیل کردیا- امریکی وزارت خارجہ کے حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس متعدد موضوعات ، یعنی "علاقائی بحرانوں اور علاقے میں عام شہریوں پر اس کے پڑنے والے منفی اثرات" " میزائل پروگرام میں توسیع پر پابندی" سائیبر سیکورٹی اور توانائی کے شعبے میں ابھرتے ہوئے نئے خطرات" اور انتہا پسندی سے مقابلہ"  کے زیر عنوان منعقد ہوگا- 

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکی حکام نے وارسا اجلاس کا استقبال نہ ہونے کے باعث یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس اجلاس کے تعلق سے اپنے موضوعات کو تبدیل کردیں اور اس طرح اجلاس میں مختلف موضوعات کا جائزہ لیئے جانے کا اعلان کرکے دیگر ملکوں کے وزرائے خارجہ کی شرکت کو یقینی بنائیں- اس سلسلے میں اہم نکتہ یہ ہے کہ جن ملکوں کے وزرائے خارجہ اور حکام اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ہیں ان کے درمیان کافی زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں جس کی بنا پر ایسا نہیں لگتا کہ ان ملکوں کی جانب سے امریکہ کو، ایران کے خلاف اتحاد تشکیل دینے کا مثبت جواب مل سکے گا- 

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کچھ ہی گھنٹوں قبل ایک ٹوئیٹ میں، پولینڈ کو اور وارسا اجلاس میں شریک ہونے والے دیگر ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جن افراد نے بھی امریکہ کے توسط سے ایران مخالف سازشوں میں اب تک امریکہ کا ساتھ دیا ہے وہ یا تو مرچکے ہیں یا بی آبرو ہوکر کنارے لگا دیئے گئے ہیں جبکہ ایران ہمیشہ سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے- 

 ایران مخالف وارسا اجلاس ایسے حالات میں منعقد ہو رہا ہے کہ روس ، لبنان اور عراق جیسے ملکوں نے اس میں شرکت سے انکار کیا ہے جبکہ واشنگٹن کے یورپی اتحادی بھی اس میں شرکت کے تعلق سے تذبذب کا شکار ہیں- ایران کے نقطہ نگاہ سے یہ اجلاس ، ایران کی علاقائی پالیسی اور مواقف پر ذرہ برابر بھی اثرانداز نہیں ہوگا- جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے ارنا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وارسا اجلاس بے فائدہ ہے اس لئے کہ اس سے ایران کی طاقت و قدرت پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔  اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا کہ پولینڈ نے کہا ہے کہ وارسا اجلاس میں ایران مخالف کوئی بات نہیں کی جائے گی تاہم اب دیکھنا ہے کہ  اجلاس کے انعقاد کے موقع پر پولینڈ اپنے وعدے پر کس حد تک عمل کرتا ہے ۔

ٹیگس