Feb ۲۴, ۲۰۱۹ ۱۷:۳۰ Asia/Tehran
  • علاقے کی سلامتی، ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری کے نقطہ نگاہ سے

علاقےمیں اجتماعی سلامتی اور استحکام کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی، بین الاقوامی اصول و قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق ہے کہ جس کا قانونی تعاون میں توسیع کے دائرے میں جائزہ لیا جاتا ہے-

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ایڈمیرل علی شمخانی نے تسنیم نیوز ایجنسی کے ساتھ انٹرویو میں ایران اور علاقے سے متعلق تازہ ترین سیاسی اور سیکورٹی تبدیلیوں کےبارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے مقابلہ اور علاقے میں سلامتی کو تحفظ فراہم کرنا اسلامی جمہوریہ ایران کی قطعی اور ثابت پالیسیوں میں سے ہے- اسی بنا پر گذشتہ برسوں کے دوران ایران، دہشت گردی سے مقابلے کی فرنٹ لائن پر رہا ہے-   

اسلامی جمہوریہ ایران کا ماننا ہے کہ بیرونی عناصر کے وجود کے بغیر ہی، ایک دوسرے کے تعاون سے علاقے میں امن و سلامتی ، استحکام اور تعمیر و ترقی کے لئے کام انجام دیا جا سکتا ہے اور اگر مشکلات بھی ہوں تو ان پر بھی غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے- یہ نقطہ نگاہ قطعی طور پر امریکہ اور علاقے کی  مداخلت پسند اور جارح حکومتوں کے فائدے میں نہیں ہے- اسی بنا پر امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب کی مشترکہ پالیسی، اس روش کے برخلاف عمل کرنے پر استوار ہے- امریکہ مختلف روشوں سے اس امر کے درپے ہے کہ علاقے میں سیکورٹی کی برقراری میں ایران کی کوششوں میں رکاوٹ بن جائے-

ایرانو فوبیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سیاسی اجماع کہ جس کی تازہ ترین مثال وارسا کانفرنس ہے اسی دائرے میں تشکیل پائی - امریکہ جانتا ہے کہ یہ کوششیں شکست خوردہ ہیں لیکن بہرصورت یہ ظاہر کرنے پر مجبور ہے کہ ایران کے ساتھ دشمنی میں وہ اکیلا اور تنہا نہیں ہے- ایران کے خلاف علاقائی اتحاد قائم کرنے کی امریکی کوششیں شروع سے ہی مشکلات سے دوچار ہوگئیں- 

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹیری علی شمخانی نے اس مسئلے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ امریکا ایرانی قوم کے خلاف اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے لیکن علاقے کے ممالک ، وائٹ ہاؤس کے حکام کے ساتھ یکساں موقف اور ہم آہنگی نہیں رکھتے- البتہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ دشمن کی جانب سے فوجی دھمکی کو سنجیدہ لیا ہے اور اسی وجہ سے اپنی دفاعی طاقت میں، خواہ وہ میزائل کے شعبے میں ہو یا اعلی درجے کا ایئر ڈیفنس سسٹم ہو بہت زیادہ اضافہ کیا ہے- آج ایران فوجی شعبے میں ہر خطرے اور دھمکی کا دنداں شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم بھی ہے، اور یہ مسئلہ تل ابیب کے لئے بھی مکمل طور پر واضح اور آشکار ہے- اسی وجہ سے وہ ہمیں گیڈر بھبکیاں دے رہے ہیں- اور قطعی طور پر کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم سے جنگ نہیں کرسکتے اس لئے اپنے دھمکی آمیز لہجے میں مزید شدت پیدا کر رہے ہیں- ٹرمپ کی روش یہ ہے کہ وہ جنگ نہیں جانتے، اور اسی لئے تاکہ جنگ نہ ہو، ڈرا دھمکا رہے ہیں- 

ماضی پر نظر ڈالنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ چند عشروں کے دوران مغرب کی جانب سے مختلف پروپگنڈوں اور سازشوں میں، علاقے میں امریکہ کا براہ راست کردار رہا ہے- علاقے میں امریکی مداخلتیں ایک جانب جہاں امریکہ کے مزید اثر و رسوخ کا سبب بنی ہیں وہیں دوسری جانب علاقے کی سلامتی کے خطرے سے دوچار ہونے کا بھی سبب بنی ہیں- 

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ آللہ العظمی خامنہ ای نے کچھ دنوں قبل ایک خطاب میں، علاقے میں امریکی مداختلوں کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ امریکہ ، علاقے کو خوشحال دیکھنا نہیں چاہتا اسی لئے اس کی کوشش ہے کہ علاقے کی حکومتیں اور  قومیں آپس میں الجھی رہیں تاکہ وہ سامراج کے خبیث عامل یعنی صیہونزم سے مقابلے کے بارے میں نہ سوچیں-

البتہ اسلامی جمہوریہ ایران پوری قوت و اقتدار کے ساتھ ،غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں ڈٹا ہوا ہے اور پڑوسی ملکوں کی سلامتی کو اپنی سلامتی کا ایک جزسمجھتا ہے- اسلامی جہموریہ ایران وہ پہلی حکومت تھی کہ جس نے دہشت گردوں سے مقابلے کے لئے شام کی حکومت اور عوام کی مدد کا مثبت جواب دیا- علاقے میں ایران کی اسٹریٹیجی، باہمی تعاون اور قوموں کے عزم و ارادے سے ہم آہنگی اور ہمراہی پر استوار ہے- ایران، عالمی دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اس حد تک سنجیدہ اور آمادہ ہے کہ علاقے کے دیگر ملکوں کی درخواست پر ان کی مدد بھی کر رہا ہے-   

ٹیگس