بدامنی سے مقابلے کے لئے فوج کی توانائی پر افغانستان کے وزیر دفاع کی تاکید
افغانستان کی وزارت دفاع کے سرپرست نے کہا ہے کہ افغان فورسیز غیر ملکی فوجیوں کی مدد کے بغیر اپنے ملک کا دفاع کرسکتی ہیں-
اسداللہ خان نے افغان عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غیرملکی افواج ہمیشہ اس ملک میں نہیں رہیں گی اس لئے ہمیں اپنی سرزمین کے دفاع اور حفاظت کے لئے خود آمادہ ہونا چاہئے- انہوں نے کہا کہ جیسا کہ افغانستان کے عوام نے برطانوی عناصر کو اپنے ملک سے باہر نکال دیا تھا اور اپنے ملک کی آزادی کو اپنے نام سے رقم کیا تھا، نئی نسل بھی ہر جارحیت کے مقابلے میں اپنے ملک کا دفاع کرسکتی ہے-
افغانستان کی وزارت دفاع کے سرپرست نے افغان فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یقین رکھیں کہ غیر ملکی افواج کے بغیر بھی آپ ملک کی حفاظت کرسکتے ہیں- واضح رہے کہ افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے ملک کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کی حفاظت اور بدامنیوں سے مقابلے کے لئے اس ملک کی فوج کی توانائی کے بارے میں یہ بیان ، افغانستان میں امن و سلامتی کے تحفظ کے سلسلے میں ملکی اور غیرملکی سطح پر کئے گئے بعض اظہار خیالات کے جواب میں ہے-
اگرچہ افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کی تشکیل کے ابتدائی مہینوں سے ہی اس ملک کے بعض حلقوں اور شخصیات کی جانب سے حکومت کی سیکورٹی کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے لیکن گذشتہ چند مہینوں کے دوران ان تنقیدوں میں بہت اضافہ ہوگیا ہے- اندرون ملک تنقید کرنے والوں کی نظر میں افغانستان کی حکومت کے پاس بدامنی سے مقابلے کے لئے موثر پالیسی نہیں ہے اور تشدد اور جھڑپوں میں اضافہ اور اسی طرح طالبان اور داعش کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ، انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے اس ملک کی فوج کے منصوبوں کے غیر مفید ہونے کی علامت ہیں- ایسے دباؤ کے سائے میں تقریبا تین مہینہ قبل صدر افغانستان محمد اشرف غنی نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی سیکورٹی ٹیم میں تبدیلی لائیں-
اشرف غنی نے دو الگ الگ احکامات میں افغانستان کے وزیر داخلہ "ویس احمد برمک " اور وزیر دفاع "طارق شاہ بہرامی" کو برطرف کردیا اور ان کی جگہ "امراللہ صالح" اور "اسداللہ خالد" کو لائے- اس سے قبل صدر افغانستان کے حکم پر حمداللہ محب کو، محمد حنیف اتمر کی جگہ اس ملک کی قومی سلامتی کے مشیر کی جگہ متعین کیا گیا تھا- ظاہر سی بات ہے کہ یہ تبدیلیاں افغانستان میں امن و سلامتی کی صورتحال میں بہتری کے مقصد سے صدر افغانستان کے توسط سے انجام پائی ہیں-
ریڈیو دری کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں افغان امور کے ماہر لیاقت علی امینی کہتے ہیں کہ افغانستان کی سیکورٹی فورسیز شجاعت و بہادری، حب الوطنی اور فداکاری میں بے مثال ہیں لیکن ان کے مینجمنٹ اور انتظامی امور میں کمزوری اس بات کا باعث بنی ہے کہ جنگ صحیح طور پر ڈکٹیٹ نہیں کی جا رہی ہے اور دشمن ان حالات سے اپنے حق میں فائدہ اٹھا رہا ہے-
افغانستان کی وزارت دفاع کے سرپرست نے افغانستان کے دفاع اور بدامنی سے مقابلے کے لئے فوج کی صلاحیتوں اور توانائیوں پر تاکید کرنے کے ساتھ ہی ، قیام امن کے سلسلے میں قومی اتحاد حکومت کی کمزوری پر ہونے والی تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے بعض مغربی ملکوں منجملہ امریکہ کے رویے اور موقف پر ردعمل ظاہر کیا ہے-
مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ افغانستان میں دہشت گردی سے مقابلے اور اس ملک کے دفاع کے بہانے سے سترہ سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں موجود ہے اور اسے مسلسل شکست و ناکامی کا سامنا ہے اس کے باوجود وہ اس ملک سے اپنے فوجیوں کے نکالے جانے کو، افغانستان پر دہشت گردوں کے تسلط اور اپنی نام نہاد کامیابیوں پر پانی پھیر جانے کا باعث قرار دے رہا ہے- امریکہ یہ دعوی ایسی حالت میں کر رہا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی ، اس ملک میں کشیدگی ، دہشت گردانہ کاروائیوں میں شدت اور افغان شہریوں کے بڑے پیمانے پرقتل عام کا باعث بنی ہے-
افغانستان میں برسوں سے جاری بحران اور تشدد سے پتہ چلتا ہے کہ غیرملکی خاص طور سے علاقے کے باہر کی مداخلتیں نہ صرف افغانستان میں بدامنی اور بحران میں شدت کو ہوا دے رہی ہیں بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں- بہرحال افغان عوام جنگ سے تھک چکے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ملک کی آئندہ نسل کی امن و صلح کے ماحول میں افغانستان کی صورت حال کی بہتری کے لئے تربیت کی جائے تاکہ مستقبل میں یہ ملک اپنی داخلی صلاحیتوں کے سہارے اپنی خودمختاری اور قومی اقتداراعلی کا پہلے سے زیادہ بہتر طریقے سے دفاع کرسکے-