طالبان نے ہتھیار ڈالنے کی خلیل زاد کی درخواست مسترد کردی
افغانستان کے امور میں امریکی نمائندے زلمی خلیل زاد کی جانب سے، افغانستان میں جنگ بندی کے اعلان اور طالبان گروہ کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی ضرورت پر مبنی درخواست کو طالبان کے ترجمان نے مسترد کردیاہے-
زلمی خلیل زاد کی درخواست پر ردعمل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ہم سے زمین پر ہتھیار رکھنے کی درخواست کرنے کے بجائے امریکیوں سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ افغانستان میں جنگ و خونریزی اور منھ زوری کا سلسلہ بند کریں کہ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں افغان شہریوں کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور اس ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے- مجاہد نے کہا کہ امریکہ کو یہ جان لینا چاہئے کہ جب تک کہ اس کے فوجی افغانستان سے نکل نہیں جاتے، طالبان بھی زمین پر ہتھیار نہیں رکھیں گے- طالبان گروہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ افغانستان میں اپنی ناکام اسٹریٹیجی کو متوقف کرے کیوں کہ اس ملک کے عوام جنگ کے خاتمے اور اپنے ملک میں امن کے خواہاں ہیں- خلیل زاد کی جانب سے طالبان گروہ سے ہتھیار ڈالنے اور افغانستان میں جنگ بندی کے اعلان کی اپیل پر اس گروہ کی مخالفت کا تعلق اس اسٹریٹیجی سے ہے کہ جسے طالبان نے گذشتہ چند برسوں سے اختیار کر رکھا ہے- طالبان کے نقطہ نگاہ سے زمین پر ہتھیار رکھنا اور جنگ بندی کا اعلان کرنا اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کہ امریکی فوجی اس ملک میں موجود ہیں۔ اور جب تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے توسط سے افغانستان پرقبضہ جاری رہے گآ یہ گروہ بھی ان کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا-
خلیل زاد کی اپیل پر طالبان کے منفی جواب سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات بدستور تعطل سے دوچار ہیں اور ان کے درمیان مذاکرات کا چھٹا دور کہ جو حال ہی میں قطر میں شروع ہوا ہے ، گذشتہ مذاکرات کے پانچ مرحلوں کی مانند یہ بھی ناکام ہوگیا ہے- امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کے انعقاد کے باوجود اب تک دونوں فریق افغانستان میں جنگ بند کرانے یا امن قائم کرنے کے سلسلے میں کسی اتفاق رائے تک نہیں پہنچ سکے ہیں- گروہ طالبان، افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا اور اس ملک میں جنگ بندی کا خواہاں ہے، جبکہ امریکہ جنگ کا خاتمہ، افغانستان سے غیر مشروط طور پر اپنے مکمل انخلا سے متعلق کوئی ضمانت دیئے بغیر چاہتا ہے- افغانستان میں امن کے قیام کے مسئلے پر امریکہ اور طالبان کی جانب سے الگ الگ دو مختلف مطالبے اس بات کا باعث بنے ہیں کہ ان کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوجائیں-افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر احمد سعیدی کہتے ہیں: امریکہ اور طالبان کا مذاکرات کے لئے پایا جانے والا محرک، یکسر مختلف ہے، امریکہ جنگ بندی کا خواہاں ہے جبکہ گروہ طالبان افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا خواہاں ہے- یہ قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کے اختتام کے بعد کہ جو ناکام رہے اور جس میں افغان حکومت کو دعوت نہ دینے کے باعث حکومت میں سخت ناراضگی بھی پائی جاتی ہے، صورتحال یہ ہے فریقین یعنی امریکہ اور طالبان فوجی ٹکراؤ اور جنگ کے نئے دور کے آغاز کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کرکے اس کوشش میں ہیں کہ جنگ کے میدان میں برتری حاصل کرنے کے ساتھ ہی فریق مقابل کو اپنے مطالبے کے سامنے جھکنے پر مجبور کریں-ایسے حالات میں امریکہ اور طالبان ایک دوسرے کو حملے کی دھمکی دے رہے ہیں کہ بلا شبہ اس جنگ میں عام شہریوں کا قتل عام ہوگا اور افغانستان میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں گے-
یہی سبب ہے کہ بارہا سرکاری حکام اور افغانستان کے اراکین پارلیمنٹ نے اور اسی طرح سیاسی و مذہبی شخصیات نے افغانستان کے امور میں امریکی مداخلت اور کابل حکومت کو نظر انداز کرنے کی بابت خبردار کیا ہے- افغان حکومت نے امریکہ اور طالبان کے مابین افغان حکومت کے بغیر مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہر اس عمل کی، جس سے افغان حکومت کو دور رکھا جائے، مخالفت کی جائے گی۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ افغان امن کے عمل میں امریکہ جب تک افغان حکومت کی موثر موجودگی کے بغیر، طالبان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات انجام دیتا رہے گا اس وقت تک ان مذاکرات میں ہونے والے ممکنہ سمجھوتے ، افغانستان کے آئین اور قومی مفادات کو نظر انداز کرنے کے باعث ، اس ملک کو بحران سے نکالنے میں کوئی مدد نہیں کریں گے- مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ، افغانستان میں دہشت گردی سے مقابلے اور اس ملک کے دفاع کے بہانے سے سترہ سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں موجود ہے اور اسے مسلسل شکست و ناکامی کا سامنا ہے اس کے باوجود وہ اس ملک سے اپنے فوجیوں کے نکالے جانے کو، افغانستان پر دہشت گردوں کے تسلط اور اپنی نام نہاد کامیابیوں پر پانی پھیر جانے کا باعث قرار دے رہا ہے- امریکہ یہ دعوی ایسی حالت میں کر رہا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی ، اس ملک میں کشیدگی ، دہشت گردانہ کاروائیوں میں شدت اور افغان شہریوں کے بڑے پیمانے پرقتل عام کا باعث بنی ہے-