May ۱۷, ۲۰۱۹ ۱۶:۱۰ Asia/Tehran
  • امریکہ کے مقابلے میں متمدن دنیا کی استقامت کی ضرورت

ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے دورہ جاپان کے موقع پر اس ملک کے اعلی حکام سے ملاقات میں ایٹمی سمجھوتے اور مغربی ایشیاء کے علاقے میں امریکہ کی تخریبی پالیسیوں پر تبادلہ خیال کیا

محمد جواد ظریف نے جمعرات کو جاپانی حکام سے ملاقات کے بعد جاپانی ذرائع ابلاغ کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ : متمدن دنیا کو قانون کی پابندی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے والوں کے خلاف امریکہ کی منھ زوری کا مقابلہ کرنا چاہئے-

 ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف ، ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے کے بعد سے واشنگٹن کے تخریبی اقدامات تیز ہونے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لئے اہم ممالک کے حکام کے ساتھ ملاقات و گفتگو کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں- البتہ اس پالیسی کا مطلب ایران کی قومی پالیسی سے چشم پوشی نہیں ہے اور تہران سفارتکاری کے اہم کردار کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے مفادات و مصلحتوں کا بھرپور دفاع کر رہا ہے-

 ایران ہمیشہ مغربی ایشیا کے اسٹریٹیجک علاقے میں کشیدگی کا مخالف رہا ہے اور ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں ایران کے نئے اقدامات اور جواد ظریف کا ایشیائی ممالک کا دورہ ، ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ایران کے تعمیری کردار کا عکاس ہے-

ایران کی اصولی خارجہ پالیسی ، تعمیری مذاکرات ، اہم مسائل کے حل کے لئے یکجہتی اور بین الاقوامی قوانین و اقوام متحدہ کے منشور کے احترام پر استوار ہے- ایسے عالم میں جب ایٹمی سمجھوتے کے خلاف  امریکہ کی تخریبی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں، ایران کی جانب سے ذمہ داری کے ساتھ اس سمجھوتے پر عمل درآمد ، عالمی سطح پر تہران کے تعمیری کردار کا ثبوت ہے-ملت ایران پر دباؤ میں شدت ، مغربی ایشیا کے علاقے میں مزید کشیدگی اور ایران کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک کو ڈرانا دھمکانا ، عالمی امن و ثبات کے لئے خطرہ ثابت ہونے والی امریکہ کی منھ زوری کے سوا اور کیا ہے ؟

وائٹ ہاؤس میں ڈونالڈ ٹرمپ کے پہنچنے کے بعد سے بین الاقوامی معاہدوں اور چند جانبہ پسندی پر مبنی نظام کو سخت خطرے کا سامنا ہے اور ان حالات میں امریکہ کے موجودہ رویّے کے سامنے ڈٹ جانا ایک ضروری امر ہے-

 ایران کے سلسلے میں ٹرمپ حکومت کا رویہ صرف سیاسی ہے اور اس کا ثبوت ایٹمی سمجھوتے سے نکلنے کے بعد گذشتہ ایک برس سے امریکی اقدامات ہیں- اسی تناظر میں امریکی ایوان نمائندگان میں اس ملک کی انٹیلیجنس کمیٹی ، خارجہ کمیٹی اور مسلح افواج کمیٹی کے سربراہوں نے اس ملک کے وزیر خارجہ مائک پمپئو کو ایک خط لکھ کرایران کے بارے میں انٹیلیجنس ڈاٹا کو سیاسی بنانے اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں خبردار کیا- اس مشترکہ خط میں آیا ہے کہ : امریکی وزارت خارجہ، ایران کے بارے میں اکثر انٹیلیجنس ڈاٹا  کو سیاسی بنا رہی ہے- امریکی سینیٹر برنی سینڈرز اور کریس وان ہولن نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ایران کے بارے میں امریکی حکومت کے رویّے کا الٹا نتیجہ نکلے گا- امریکہ کے ڈیموکریٹ سینیٹر ٹیم کین نے بھی کہا ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ کرنا ، حماقت ہوگی - ان مخالف آوازوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی عقلاء ، ٹرمپ حکومت اور ان کی ٹیم کے تخریبی رویّے کو سمجھ چکے ہیں- مغربی ایشیاء کے علاقے میں امریکہ کے نئے اقدامات بھی انٹیلیجنس ڈاٹا کی بنیاد پر غلط رہے ہیں اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ علاقے میں ایران کی تیاری صرف دفاعی ہے-

اس سلسلے میں وال اسٹریٹ جرنل جریدے نے ٹرمپ حکومت کے کچھ حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایران کے بارے میں نئی اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں کو تہران کے رویّے کی تشریح میں غلطی ہوئی ہے اور ایران کے جن اقدامات کو خطرہ اور دھمکی سمجھا جا رہا ہے وہ دفاعی ماہیت کے ہیں-

 سفارتکاری اور بین الاقوامی قوانین کو ترجیح دینا ، موجودہ امریکی حکام اورمغربی ایشیا میں ان کے چند حامی ملکوں  کے اقدامات سے پردہ  اٹھانا اور امریکہ کے تخریبی رویّے کے مقابلے میں کھلا موقف اختیار کرنے کے لئے دیگر ملکوں کو تیار کرنا ، ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف کے ہندوستان ، جاپان اور چین سمیت اہم ایشیائی ملکوں کے دورے کا خاص مقصد رہا ہے-

ٹیگس