تہران میں جاپانی وزیر اعظم کے مذاکرات
جاپان کے وزیر اعظم آبے شنزو نے جو بدھ کو ایک اعلی سطحی وفد کے ہمراہ تہران پہنچے تھے ، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای اور صدرمملکت ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات و گفتگو کی۔
بہت سے تجزیہ نگار و مبصرین اس دورے کو ایران کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے میں جاپان کی دلچسپی کے تناظر میں دیکھتے ہیں- آبے شنزو نے ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ پر تاکید کی تاہم مغربی ایشیا کے حالات بحرانی ہونے کے سلسلے میں جاپانیوں کی تشویش بھی اس دورے کی اہمیت کی ایک وجہ ہے- چنانچہ جاپان کے وزیراعظم نے اپنے بیانات میں مغربی ایشیا میں کشیدگی میں کمی کو اپنی ایک آرزو قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے اسی موضوع پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ایران کا دورہ کیا ہے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے بھی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جاپانی وزیراعظم علاقے کے مسائل و مشکلات کے سلسلے میں کافی خوش فہمی رکھتے ہیں کہا کہ ایران ، جاپان کی جانب سے ایٹمی سمجھوتے کی حمایت جاری رہنے اور علاقے و دنیا کے لئے اس سمجھوتے کی اہمیت درک کئے جانے پر خوش ہے-
ڈاکٹر حسن روحانی نے ایران اور جاپان کے اعلی رتبہ وفود کے مشترکہ اجلاس میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ تمام ممالک ایٹمی سمجھوتے اور اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس اکتیس کے سلسلے میں واضح و معین ذمہ داری کے حامل ہیں، امید ظاہر کی کہ جاپان بھی بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے گا-
اس کے باوجود اس دورے کی سب سے اہم و بڑی وجہ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تلاش کرنا چاہئے کیونکہ کسی جاپانی وزیراعظم نے اکتالیس سال بعد تہران کا دورہ کیا ہے- ایران اور جاپان کے تعلقات کی تاریخ میں آبے شنزو تہران کا دورہ کرنے والے جاپان کے دورے وزیراعظم ہیں -
سیاسی امور کے ماہر سلیمی نمین کا خیال ہے کہ چین اور ہندوستان جیسی بہت سی اقتصادی طاقتوں کی مانند جاپانیوں کو بھی دنیا میں یک قطبی نظام کے کمزور ہونے کا یقین ہے اور وہ ایران جیسی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں-
سیاسی امور کے اس ماہر کا خیال ہے کہ ایران نے خلیج فارس اور علاقے میں امریکہ کی بہت سی پالیسیوں کو ناکام بنایا ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کا مطلب مغربی ایشیاء کے علاقے میں کردار ادا کرنا اور با اثر ثابت ہونا ہے لہذا ایسا نظر آتا ہے کہ جاپانی اس دورے سے ٹرمپ کے لئے دلالی سے کہیں زیادہ اپنے اعلی اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جن کا اب دنیا کے سیاستدانوں میں زیادہ اعتبار نہیں رہ گیا ہے - اس دورے کی خصوصیات سے پتہ چلتا ہے کہ جاپانیوں کے اہداف کہیں بلند تر ہیں - جاپان ایک ایسا ملک ہے جو اپنی خارجہ پالیسی میں بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے اس بنا پر توقع ہے کہ آبے ایک ایسے ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے جسے امریکہ کی ایٹمی بمباری اور جرائم کا تلخ تجربہ ہے علاقے اور دنیا کو درپیش اصلی خطرے کو بخوبی سمجھیں گے اور امریکہ و اسرائیل کی سیاسی ماحول سازی سے ماورا علاقے میں امن و استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں گے- اس حقیقت کو سمجھنا پڑے گا کہ علاقے میں کشیدگی کی اصلی وجہ اقتصادی جنگ ہے جو امریکہ نے ایران کے خلاف شروع کررکھی ہے - واضح ہے کہ جب تک یہ جنگ بند نہیں ہوگی اس وقت تک علاقے میں کشیدگی جاری رہے گی بلکہ اس میں شدت آئے گی تاہم ایران بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتا ہے اور امن و ثبات کا خواہاں ہے اور اسی بنا ایران کی خارجہ پالیسی میں یہ اصول دوسرے ملکوں کے ساتھ سیاسی و اقتصادی تعلقات میں فروغ کی بنیاد ہے-
اس نقطہ نظر کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ جاپانی وزیراعظم کے دورہ تہران کا مقصد ایک طرف ایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ پر مرکوز ہے اور دوسری جانب علاقے کے امن و استحکام کے بارے میں تہران و ٹوکیو کے موقف میں نزدیکی پیدا ہونے کا ایک موقع ہے-