خلیج فارس میں کشیدگی بڑھانے کی پالیسی کا تسلسل
واشنگٹن کے حکام مغربی ایشیا اور خلیج فارس کے علاقے میں کشیدگی بڑھانے کی پالیسی جاری رکھتے ہوئے علاقے کے بعض ممالک کو مالی طور پر اپنی اس پالیسی میں شامل کرنے اور واشنگٹن کے مدنظر فوجی و سیکورٹی اخراجات میں چین اور جاپان جیسے ممالک کو شریک ہونے پر مجبور کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مفادات و مراعات حاصل کر سکیں-
اس سلسلے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب کے حکام سے ملاقات میں امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ خلیج فارس میں نگرانی کے تمام اخراجات تنہا نہیں اٹھانا چاہتا اور اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے ریاض و ابوظہبی سے مطالبہ کیا کہ وہ خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے اخراجات کی ادائگی میں اپنی حصے داری بڑھائیں -
ٹرمپ کی حکومت میں باج خواہی اورغنڈہ ٹیکس وصول کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے- ڈونالڈ ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں اسی وقت سے اپنے اتحادیوں سے مسلسل پیسے وصول کر رہے ہیں- انھوں نے نیٹو کے رکن ممالک کو بھی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک اس ادارے میں اپنا پورا حصہ ادا کریں اور اسے بڑھائیں- سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کی دولت اور تیل کے ذخائر روزاول سے ہی ٹرمپ کی نظروں میں ہیں اور اسی لئے انھوں نے کچھ مہینوں پہلے سعودی عرب کو دودہ دینے والی ایسی گائے کہا تھا جسے دوہنا چاہئے-
اس کے تحت واشنگٹن نے حالیہ چند مہینوں کے دوران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بڑے بڑے فوجی و اسلحہ جاتی معاہدے کرکے ، جنگ یمن میں ان ملکوں کی حمایت کرکے اورخطرات کے مقابلے میں علاقے کے ممالک کی حمایت کے دعوے کے ساتھ ہی خلیج فارس کے علاقے میں کشیدگی و خطرات کو ھوا دے رہا ہے اور ان سے زیادہ سے زیادہ پیسوں کے مطالبے پر آتر آیا ہے-
اس مقصد کے حصول کے لئے امریکہ نے حالیہ ہفتوں میں خلیج فارس اور بحیرہ عمان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی ، ایران کے خلاف سنگین پابندیاں عائد کر کے اور فوجی دھمکیاں دے کر علاقے میں جنگ کا خطرہ بڑھا دیا ہے اور یہ امر اس بات کا باعث بنا ہے کہ واشنگٹن علاقے کے موجودہ حالات کو ایک بار پھر خاص طور سے دو محور پر اپنے اہداف حاصل کرنے کا بہانہ بنائے - اول یہ کہ امریکہ نہ صرف متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک سے علاقے کی سیکورٹی و مزید فوجی اخراجات وصول کرنا چاہتا ہے بلکہ بدامنی بڑھا کر فوجی اخراجات میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے-
اس سلسلے میں ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ : چین کا اکانوے فیصد اور جاپان کا اکسٹھ فیصد تیل اور دیگر بہت سے ممالک کا ایندھن آبنائے ہرمز سے ہو کرگذرتا ہے بنا برایں ہم اخراجات وصول کئے بغیر برسوں سے دیگر ممالک کی جہاز رانی کے راستوں کی حفاظت کیوں کریں؟
دوسرا موضوع یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے امریکہ کی جارحانہ پالیسیاں بے نقاب ہوچکی ہیں اس بنا پر واشنگٹن کے حکام ، اپنی پالیسیوں کو جائز ٹھہرانے کے لئے دیگر ممالک کو بھی اپنے کھیل میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں اپنے ہمراہ کر کے علاقے میں سیکورٹی فراہم کرنے کے بہانے اپنا رعب و دبدبہ اور خوف وحشت بڑھا سکیں-
امریکہ کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے فائدہ اٹھانے، انھیں استعمال کرنے اور اپنے مفادات کے لئے علاقے میں کشیدگی کو ھوا دینے والی موجودگی جاری رکھنے کی کوششوں اور دعوؤں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ علاقے سے امریکہ کے باہر نکلنے کا خواہاں رہا ہے- ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے ٹرمپ کی جانب سے سعودیوں کی توہین کے بعد ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ تحقیرو توہین ، سیکورٹی کو اغیار کے حوالے کرنے کا نتیجہ ہے-