Jun ۲۹, ۲۰۱۹ ۱۵:۵۷ Asia/Tehran
  • جاپان میں چین اور امریکہ کے صدور کی ملاقات

چین اور امریکہ کے صدور نے جاپان کے شہر اوزاکا میں گروپ بیس کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ایک دوسرے سے ملاقات اور گفتو کی

چین اور امریکہ کے صدور شی جن پینگ اور ڈونالڈ ٹرمپ نے اس ملاقات میں تجارت سمیت دیگر اختلافی مسائل کے حل کی راہوں کا جائزہ لیا-

 فریقین نے مذاکرات کے دوران تجارتی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا- ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ امریکہ کے لئے چینی اشیاء کی برآمدات پر نئے ٹیکس عائد نہیں کریں گے-

 یہ ملاقات ایسے عالم میں انجام پائی ہے کہ جب ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے بیجنگ کو خبردار کیا تھا کہ اگر چینی ہم منصب کے ساتھ ان کے مذاکرات اور صلاح و مشورے ناکام ہوئے تو چین سے درآمد ہونے والی تمام اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا دی جائے گی-

جاپان میں گروپ  بیس کے سربراہی اجلاس کے موقع پر چین اور امریکہ کے سربراہوں کی ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی جنگ رکنے کی وہ امیدیں بحال ہوگئ ہیں جو تجارتی اختلافات کے حل کے لئے کوئی راہ حل پیدا کرنے کی غرض سے دونوں ملکوں کے وفود کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ختم ہو گئی تھیں-

 اس تجارتی جنگ کو روکنے کے لئے امریکہ اور چین کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے گیارہ دور کسی نتیجے تک نہ پہنچنے کی کی اصلی وجہ امریکی فریق کی زیادہ پسندی رہی ہے کہ جو اس بات کا موجب بنی کہ بیجنگ کے حکام ، وائٹ ہاؤس کو ان مذاکرات سے باہر نکلنے کے بارے میں انتباہ دیں -

اگرچہ یہ پیشگوئی کی جا رہی تھی کہ چین اورامریکہ کے صدور کی گفتگو دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اختلافات کی گتھیاں سلجھا سکتی ہیں لیکن گروپ بیس کے اجلاس کے انعقاد سے پہلے ٹرمپ کے اس دھمکی آمیز بیان نے کہ اگر شی جن پینگ کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو چین سے امریکہ درآمد ہونے والی اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا دی جائے گی ، عملی طور پر ان مذاکرات کی کامیابی کا امکان بہت کم کردیا تھا-

 ٹرمپ کے اس موقف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چین کے صدر کے ساتھ مذاکرات میں ایسے عتدال پسندانہ راہ حل کے خواہاں نہیں ہیں جو فریقین کے لئے اطیمنان بخش ہو- امریکی صدر کی یہ بھی کوشش ہے کہ بیجنگ پر سیاسی دباؤ بڑھا کر اپنی زیادہ پسندی کو عملی جامہ پہنائیں -

 ٹرمپ کی نگاہ میں شی جن پینگ کے ساتھ گفتگو اسی صورت میں کامیاب ہو گی جب چین کے صدر امریکی حکومت کی تمام شرطوں کو قبول کرلیں اورامریکی صدر کی یہ توقع ایک ایسی بازی ہے جو ہار جیت پر مبنی ہے یعنی ایک ایسا کھیل کہ جس میں فریق مقابل  چین کو ہارنا پڑے گا-

اگرچہ دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان چین سے اشیاء کی درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی نافذ نہ کرنے اور تجارتی مذاکرات پھر سے شروع کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا ہے تاہم بین الاقوامی سطح پر وائٹ ہاؤس کی وعدہ خلافیوں اور بدعہدیوں کے پیش نظر یہ سمجھوتہ کبھی بھی ختم ہوسکتا ہے- 

امریکہ میں ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں اس وقت سے ہی انھوں نے با رہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر ثابت قدم نہیں رہتے اور کسی بھی وقت کوئی بھی معاہدہ توڑ سکتے ہیں-

 اس طرح ڈونالڈ ٹرمپ اور شی جن پینگ کے درمیان تجارتی مذاکرات شروع کرنے اور وائٹ ہاؤس کی عدم عہد شکنی سے لے کر امریکہ کے لئے درآمد ہونے والی چینی اشیاء پر نئی کسٹم ڈیوٹی نافذ نہ کرنے کے وعدے تک کسی بھی معاہدے کے باقی رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور یہ سمجھوتہ بھی کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے-

 

 

 

ٹیگس