واشنگٹن کو عالمی حقائق کے سامنے تسلیم ہو جانا چاہئے
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خود کو یکہ و تنہا کرنے کے عمل کو روکے اور دنیا میں موجود حقائق سے ہماہنگ ہو جائے-
ایران کے وزیر خارجہ نے جمعے کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ علاقائی مذاکرات اورعدم جارحیت کے منصوبے کی پیشرفت سے ٹیم بی کمزور ہو رہی ہے- امریکہ کو چاہئے کہ خود کو یکہ و تنہا کرنے کے عمل کو روکے اور دنیا میں موجود حقائق سے ہماہنگ ہوجائے - عالمی سطح پر تجارت اور طاقت تبدیل ہو رہی ہے جسے نہ ہی چین و ایران کے خلاف اقتصادی دہشتگردی سے اور نہ ہی روس کے ساتھ آئی این ایف معاہدے سے باہر نکل کرہی اسے بدلا جا سکتا ہے-
امریکہ ایران کو نقصان پہچانے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہا ہے- اس کی یہ کوششیں اوراقدامات اقتصادی دباؤ سے بھی آگے بڑھ چکی ہیں اور اب شخصیات کے خلاف نامعقول فیصلوں میں تبدیل ہوتی جا رہی ہیں-
ٹرمپ کے ہاتھوں ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی باعث بنی ہے کہ سفارتی ثمرات ایک غیرضروری بحران میں تبدیل ہوجائیں اور آخرکار امریکہ کا ایک ناقابل اعتماد چہرہ کھل کرسامنے آجائے-
امریکہ ، تسلط پسندی اور منھ زوری کا رجحان رکھتا ہے تاہم یہ روش نہ صرف خودمختار ملکوں بلکہ امریکی پالیسیوں کے داخلی نقادوں کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے-
ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کو نکلے ہوئے ایک برس پورے ہوچکے ہیں اور اب تک امریکہ کے پچاس سے زیادہ سابق حکام ، فوجی ، ممبران پارلیمنٹ اور مفکرین بیانات جاری کر کے ایٹمی سمجھوتے میں واشنگٹن کی واپسی پر تاکید کرچکے ہیں- ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں اور وہ بین الاقوامی معاہدوں کا پابند رہے گا یا نہیں ؟
امریکی وزیرخارجہ مائک پمپئو نے واشنگٹن کی جانب سے معاہدوں کی پامالی کے سلسلے میں ایک تازہ ترین مثال جمعے کو انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلئرفورس معاہدہ یا آیی این ایف سے نکلنے کا اعلان کر کے پیش کی ہے-
جواد ظریف کے بیانات درحقیقت اسی حقیقت پرتاکید ہیں اور اس میں واضح طور پر اس عمل کے نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ آج امریکی مطالبات کے برخلاف علاقے اور دنیا کا توازن تبدیل ہوچکا ہے اور واشنگٹن مجبورا جلد یا بدیر یہ قبول کرنے کے لئے مجبور ہوگا کہ منھ زوری کی اسٹریٹیجی کا دور ختم ہوچکا ہے- امریکی تجزیاتی ویب سائٹ پولیٹیکو نے بدھ کو اپنی ایک رپورٹ میں ایران کے خلاف بحری اتحاد قائم کرنے کے لئے ٹرمپ حکومت کے منصوبے میں شامل ہونے سے ملکوں کے انکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو ٹرمپ کے یک فردی اتحاد سے تعبیر کیا اور لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ حکومت کا ایران کے خلاف اتحاد کا جسے وہ آئل ٹینکروں کی حفاظت کا عنوان دے رہے ہیں بظاہرصرف ایک رکن ہے اور وہ ریاستہائے متحدہ امریکہ ہے-
اس رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے امریکہ کے اس منصوبے پر تنقید کی ہے اور فرانس بھی اس اتحاد کا پابند نہیں ہے جبکہ جرمنی نے کھل کر اس میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے-
جرمنی کے وزیرخارجہ ہائکو ماس نے مغربی ایشیاء کے علاقے میں کشیدگی دور کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمن حکومت کا خیال ہے کہ ایران کے خلاف بیش ازحد دباؤ ڈالنے کی پالیسی ایک غلطی ہے-
واشنگٹن بدستور اشتعال انگیز اقدامات سے اپنی پالیسیوں کے صحیح ہونے پربضد ہے اور علاقے میں جنگ بھڑکانے کے لئے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کررہا ہے-
واشنگٹن کا دعوی ہے کہ اس پالیسی کا مقصد ایران کے ساتھ نیا سمجھوتہ کرنا ہے جس میں تمام اختلافی مسائل کا جائزہ لیا جائے گا تاہم اس وقت امریکہ کے اتحادیوں پر بھی واضح ہوچکا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے امریکہ کی تجاویزایک کھلا فریب ہیں-
بلاشبہ حقیقت پسندی کے مدار میں امریکہ کی واپسی کے لئے عاقلانہ سفارتکاری کی ضرورت ہے تاہم امریکہ کا رویہ دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ امریکہ قابل اعتماد فریق نہیں ہے اور امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں تنازعات و اختلافات کے حل کے لئے عاقلانہ بنیاد نہیں بن سکتیں - اس وقت واضح ہو چکا ہے کہ امریکی مطالبات تخیلات سے زیادہ کچھ نہیں ہیں-
جیسا کہ ایران کے وزیرخارجہ نے اپنے ٹوئٹراکاؤنٹ پر لکھا " امریکہ کو چاہئے کہ خود کو یکہ و تنہا کرنے کے عمل کو روکے اور دنیا کے حقائق کو تسلیم کرلے-