ایران سے متعلق متحدہ عرب امارات کی پالیسی میں تبدیلی
متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اپنی علاقائی پالیسی میں تبدیلی پیدا کرکے یمن سے پسپائی کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریۂ ایران کے ساتھ مذاکرات کا بھی اقدام کیا ہے۔
متحدہ عرب امارات مغربی ایشیا میں فعال ممالک میں سے ایک ہے جس کا گزشتہ ایک عشرہ کے دوران علاقے میں بدامنی پھیلانے میں کردار رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات سنہ 2011ع سے سعودی عرب کے نقش قدم پر چلتا رہا ہے۔ بحران شام میں مداخلت اور شام کے قانونی سیاسی نظام کے خلاف اقدام، شمالی افریقہ کے معاملات میں مداخلت، قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات کا خاتمہ اور اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف دباؤ میں امریکہ کے ساتھ تعاون، یہ سب، مغربی ایشیا کے علاقہ میں بدامنی پھیلانے والے متحدہ عرب امارات کے اقدامات میں شامل ہیں۔
البتہ متحدہ عرب امارات نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران کم سے کم دو معاملات سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی پیدا کی ہے، ایک یمن کے خلاف جنگ اور دوسرا ایران کے خلاف کشیدگی بڑھانے کی پالیسی۔ متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ کشیدگی میں کمی کی غرض سے ایران کے ساتھ مذاکرات کا بھی فیصلہ کیا لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یمن اور ایران کے بارے میں متحدہ عرب امارات کی پالیسی میں اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟
اس بارے میں پہلی وجہ یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک طرف تو ایران مخالف سعودی پالیسیوں کے مطابق کام کرنے سے اس کے مفادات حاصل نہیں ہو رہے اور دوسری طرف یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد ناکام رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اب یہ سوچ رہا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ میں تعاون جاری رکھنے سے اس کے مفادات حاصل نہیں ہوں گے بلکہ اس سے بہت زیادہ نقصان ہوگا، خاص طور سے اس لئے، کہ اب یمن کی فوج اور عوامی رضاکار فورس نے جارحانہ پالیسی اختیار کرلی ہے اور انہوں نے حالیہ مہینوں میں سعودی عرب کے اسٹریٹیجک اور حساس مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے مطابق موجودہ حالات میں یمن کے خلاف جنگ میں فعال مشارکت جاری رکھنا متحدہ عرب امارات کے اندر بدامنی بڑھانے کے مترادف ہوگا اور متحدہ عرب امارات سے غیرملکی سرمایہ کاری کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ بنابریں، متحدہ عرب امارات نے نہ صرف یمن سے پسپائی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا بلکہ اطلاعات کے مطابق اس نے ایران کے ساتھ مذاکرات بھی کئے ہیں تاکہ یمن سے آبرومندانہ طریقے سے نکلنے کے لئے ایران کی مدد حاصل کرسکے۔
عربی اخبار ”رائے الیوم“ نے اس بارے میں لکھا ہے کہ ”متحدہ عرب امارات نے ایران کے ساتھ دشمنی کے خطرہ کا احساس ہونے اور جنگِ یمن کے طول پکڑنے کی وجہ سے ایران کی طرف قدم بڑھائے ہیں تاکہ اپنے کھوئے ہوئے داخلی اتحاد و اعتماد کو پھر سے حاصل کرسکے۔ متحدہ عرب امارات کے حکام نے ایران سے خواہش ظاہر کی ہے کہ تہران یمن میں اپنے اتحادیوں سے بات کرے تاکہ وہ متحدہ عرب امارات پر اپنے حملے روک دیں۔“
ایران کے ساتھ مذاکرات کی متحدہ عرب امارات کی دوسری وجہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی مسلح افواج کے ذریعہ آبنائے ہرمز میں امریکی جاسوس طیارے گلوبل ہاک کی سرنگونی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے برطانوی تیل بردار بحری جہاز کو پکڑنا ہے۔ در حقیقت، ایران کی مسلح افواج کے ان اقدامات کے بعد متحدہ عرب امارات اسلامی جمہوریۂ ایران کی فوجی طاقت سے آگاہ ہوگیا۔ لہٰذا اب وہ ایران کے ساتھ کشیدگی پھیلانے والی پالیسی جاری نہ رکھنے اور ایران کے خلاف سعودی عرب کے پالے میں نہ کھیلنے کو ترجیح دیتا ہے۔
اس سلسلہ میں تیسری وجہ یہ ہے کہ خلیج فارس کے علاقہ میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی علاقائی طاقت کے مظاہرہ نے متحدہ عرب امارات جیسی حکومتوں پر یہ ثابت کردیا ہے کہ صرف امریکہ پر تکیہ کرنے سے علاقے میں کسی بھی طرح کی لڑائی ہونے کی صورت میں ان کے لئے سیکورٹی اور مفادات کا حصول نہیں ہوسکتا۔ بنابریں، تہران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کی پالیسی کی جگہ اس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دی ہے۔