ظریف کا دورۂ جاپان،اور تہران اور ٹوکیو کے نقطہ نگاہ سے علاقے میں امن و سلامتی کا قیام
ایران اور جاپان توانائی کی منڈیوں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ خلیج فارس میں امن و استحکام قائم کرنے میں خاص مفادات کے حامل ہیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف منگل کے روز جاپان کے دورے پر دارالحکومت ٹوکیو پہنچے جہاں انہوں نے اپنے جاپانی ہم منصب تارو کونو کےساتھ ملاقات کی۔ منگل کے روز اپنے جاپانی ہم منصب کے ہمراہ جواد ظریف نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشرق وسطی میں جاری کشیدگی سے تشویش لاحق ہے تاہم امید ہے کہ ان کشیدگیوں کو کم کرنے کے لئے سفارتی کوشسیں انجام پائیں گی-
ایران کے وزیر خارجہ اپنے دورۂ جاپان سے پہلے بیجنگ گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملاقات اور گفتگو کی تھی- جواد ظریف جاپانی وزیر اعظم شینزوآبہ سے ملاقات کے بعد ملیشیا کا دورہ کریں گے- جواد ظریف کہ جنہوں نے اپنے جاپانی ہم منصب کی دعوت پر جاپان کا دورہ کیا ہے، اس ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کی ہے-اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں جوہری معاہدے کی تازہ ترین صورتحال، علاقائی اورعالمی مسائل بالخصوص خلیج فارس اور مشرق وسطی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا-
جاپان اگرچہ چند فریقی ایٹمی معاہدے میں براہ راست شمولیت نہیں رکھتا تاہم ایک بڑی اقتصادی اور سیاسی طاقت ہونے کی حیثیت سے اس کے مواقف سے یہ صاف نطر آتا ہے کہ ٹوکیو ایٹمی معاہدے پر پابند رہنے ، اور علاقے میں امن و سلامتی کے تحفظ کی اہمیت کو بخوبی درک کرتا ہے- حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے یکطرفہ اقدامات محدود نہیں ہیں اور اگر یورپ ، چین، جاپان، روس اور ہندوستان جیسے ممالک امریکہ کی یکطرفہ پسندی کے مقابلے میں استقامت اور اس کی مخالفت نہ کریں تو یقینا اس صورتحال کے جاری رہنے سے تمام ملکوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے-
امریکہ کے توسط سے بین الاقوامی قوانین سے بے توجہی اور اس کی بارہا خلاف ورزی پر ،اس وقت خود واشنگٹن کے قریبی اتحادی بھی احتجاج کر رہے ہیں-اس سلسلے میں جاپان ٹائمز نے لکھا ہے کہ علاقے کی صورتحال اچھی نہیں ہے- امریکی اقدامات علاقے میں سخت کشیدگی کا باعث بنے ہیں- ایسے حالات میں یہ بہت اہم ہوگا کہ جاپان جیسے غیر جانبدار ممالک اس سلسلے میں عملی اقدام کریں- جاپان نے اگرچہ امریکی پابندیوں کی بہت کھل کر مخالفت نہیں کی ہے تاہم وہ علاقے میں جاری کشیدگی سے متعلق اپنی تشویش چھپا نہیں سکا ہے- جاپانی وزیر اعظم نے چند ماہ قبل تہران کا دورہ کیا تھا جس سے یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ ایران عالمی سطح پر ایک اہم اور با اثر ملک ہے- ساتھ ہی یہ کہ اقتصادی شعبے میں ایران کی عظیم گنجائشیں جاپان کے لئے ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہیں-
جاپان کے اخبار " نیکی " نے اس بارے میں لکھا ہے کہ جاپانی سفارتکار اور عہدیداران، ماضی سے زیادہ ہر روز جاپان کے اعلی حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایران کا دورہ کریں اور اس بات کی اجازت نہ دیں کہ ٹوکیو اب مزید ، ایران میں اپنے ایشین اور یورپین حریفوں سے پیچھے رہ جائے-
امریکہ نے گذشتہ دو برسوں میں اپنے ایشین اور یورپین اتحادیوں پر، ایران کو گوشہ نشیں کرنے کے لئے بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے لیکن اس کو کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے- اس وقت بھی امریکہ یورپی ملکوں پر، ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے- واشنگٹن نے اس وقت ان ملکوں کو جو ایران کے لئے اقتصادی تشویق اور رغبت کا سبب بن سکتے ہیں، میدان میں بھیجا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے تہران کو اپنے مطالبات منوانے پر قائل کرسکے - درحقیقت امریکیوں نے فوجی دھمکیوں کو، نفسیاتی سفارتی دباؤ میں تبدیل کردیا ہے البتہ ان دونوں کا ہدف و مقصد ایک ہی ہے اور وہ ایران کی مزاحمت و استقامت کو توڑنا اور بے نتیجہ مذاکرات کی میز کی جانب دوبارہ واپس لے جانا ہے-
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے منگل کو تہران میں ایک لاکھ دس ہزار رہائشی مکانات کی تعمیر کے پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ کوئی بھی ملک ایران کو شکست نہیں دے سکتا- صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ جن لوگوں نے اقتصادی دہشت گردی کے ذریعے ایرانی عوام پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے وعدوں پر عمل کریں اور جس غلط راستے کا انتخاب کیا ہے اس کو ترک کرکے صحیح راستے کا انتخاب کریں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ ایرانی عوام کے حقوق کا پاس و لحاظ ررکھیں - انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ جب تک ایرانی عوام کے خلاف پابندیاں ختم نہیں ہوجاتیں اور ایران سے مخاصمانہ رویّے کا سلسلہ بند نہیں ہوجاتا اس وقت تک ایران اور امریکا کے تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئےگی-