یورپ کے وقت ضائع کرنے کے اقدام پر ایران کا ردعمل
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اعلان کیا ہے کہ ایران کے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے تیسرے مرحلے کا نفاذ، جمعہ چھ ستمبر سے ہوجائے گا-
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، عالمی جوہری توانائی کے ادارے کے قوانین کے تحت اقدامات اٹھائے گا تاہم یورپ کو مزید 60 روز کا الٹی میٹم دیا جائے گا لہذا جب یورپ معاہدے پر عمل کرنا شروع کردے گا، اس وقت ایران بھی ایٹمی سمجھوتے پر عمل درآمد کی جانب واپس آ جائے گا۔
صدر ڈاکٹر روحانی نے، چیف جسٹس اور اسپیکر پارلیمنٹ کے ساتھ ایک مشترکہ نشست کے بعد مزید کہا کہ تیسرے قدم کے دائرے میں ایران کو جوہری ٹیکنالوجی سے متعلق جتنی ترقی اور ریسرچ کی ضرورت پڑی تو ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم، جوہری وعدوں سے ہٹ کر ان ضروریات کو پورا کرے گی- انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے اقدامات ملکی ترقی پر مبنی ہیں اور ہمارا اگلا فیصلہ عالمی جوہری ادارے کی نگرانی اور پرامن اقدامات کے فریم ورک کے مطابق ہے-
ایران کی جانب سے اٹھائے گئے پہلے اور دوسرے قدم کے باعث، ایٹمی معاہدے میں معین شدہ یورینئم کی افزودگی کی شرح میں تغیر آیا ہے- ایٹمی معاہدے کی شقوں 26 اور 36 کی بنیاد پر معاہدے کے فریق ملکوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر کوئی ملک اپنے وعدوں پر عمل نہ کرے تو دوسرا فریق بھی اپنے وعدوں پرعملدرآمد کی سطح میں کمی لاسکتا ہے-
صدر ایران نے کہا ہے کہ عالمی جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد گروہ 1+4 ممالک اپنے وعدوں پر عملدرآمد نہیں کرسکے اسی لئے ایران نے جوہری وعدوں میں کمی لانے کے اقدامات کئے ہیں- انہوں نے کہا کہ ایران نے یورپی ممالک کو پہلے اور دوسرے مرحلے میں 60 روز کے الٹی میٹم دیئے، مگر مغربی فریقوں کے ساتھ اب تک کے مذاکرات سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے اسی لئے ایران چھ ستمبر بروز جمعہ ، ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے تیسرے مرحلے پر عملدرآمد شروع کردے گا- اور اس کے تناظر میں ایران کے ایٹمی انرجی کے ادارے کو ہر وہ کام انجام دینا ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی کی تحقیق و ترقی کے لئے ضروری ہے-
ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کے لئے اٹھایا گیا تینوں قدم قابل واپسی ہے تاہم اس شرط کے ساتھ کہ یورپی ممالک بھی اپنے وعدوں پر عمل کریں- ایران نے تیسرا قدم اٹھانے کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کے یورپی فریقوں کو دو ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے ایٹمی معاہدے کے تعطل سے خود کو نکال سکیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے ایسے میں ایٹمی معاہدے میں کمی کے تیسرے مرحلے پر عملدرآمد کا فرمان جاری کیا ہے کہ گذشتہ دو مہینوں کے دوران فرانس نے مختلف منصوبوں کے ذریعے بہت زیادہ کوشش کی تاکہ ایران تیسرا قدم نہ اٹھائے- لیکن کے فرانس کے صدر کی یہ کوششیں دو وجہ سے ایران کی رضامندی حاصل کرنے کا باعث نہ بن سکیں- اول تو یہ کہ یورپی ممالک بدستور ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے تعلق سے اپنے حقیقی اور ٹھوس عزم کو ظاہر نہیں کرسکے ہیں اور اس معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے کسی طرح کا ریسک لینے کو تیار نہیں ہیں- جیسا کہ اسلامی جمہوری ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے بھی رشیا ٹوڈے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے کی صحیح معنوں میں حمایت نہیں کی ہے اور وہ ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کے لئے کوئی رسک لینے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ اور دوسرے یہ کہ فرانس کی تجاویز منجملہ ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لئے پندرہ ارب ڈالر کی کریڈٹ لائن حوالے کرنے کی تجویز یورپیوں کے گیارہ وعدوں سے مطابقت نہیں رکھتیں-
فرانسیسی وزیر خارجہ جان ایو لودریان کا یہ بیان بھی کہ پندرہ ارب ڈالر کی کریڈٹ لائن کا عملی ہونا بھی امریکی اجازت پر منحصر ہے، امریکہ کے مقابلے میں یورپ کی ناتوانی کا آئینہ دار ہے-
ایران اس صورتحال کے جاری رہنے سے ہرگز راضی نہیں ہے خاص طور پر امریکہ کی جانب سے آئے دن نئی نئی پابندیاں لگائے جانے سے مذاکرات اور سفارتکاری کے بھی تمام راستے بند ہوتے نظر آ رہے ہیں- ایران اب ایٹمی معاہدے میں یورینئم کی افزودگی کی سطح اور مقدار کو تبدیل کرنے اور پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی پیشرفت میں ترقی و توسیع کے لئے ہرطرح کی محدودیت کو کنارے لگانے کا جو اقدام کر رہا ہے وہ در اصل ایٹمی معاہدے کے تعلق سے یورپیوں کے طرز عمل کا جواب ہے کیوں کہ ایٹمی معاہدے کی بقا اسی وقت تک ہے جب تک کہ تمام فریق اس سے متعلق کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کریں-