Oct ۱۵, ۲۰۱۹ ۱۶:۵۸ Asia/Tehran
  • یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس، شمالی شام پر ترکی کے حملے کی مذمت

شمالی شام پر ترکی کے حملے، کہ جو یورپی یونین کے نقطہ نگاہ سے سنگین نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں، کے خلاف اس یونین اور اس کے بعض اہم ملکوں مثلا جرمنی اور فرانس نے ردعمل ظاہر کیا ہے-

اس سلسلے میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ نے لگزمبرگ میں اپنے ایک اجلاس میں  تازہ ترین ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ، شمالی شام کے کرد نشیں علاقوں پر ترکی کے فوجی حملوں کی متفقہ طور پر مذمت کی ہے اور تمام رکن ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ انقرہ کو اپنے ہتھیاروں کی فروخت بند کردیں-

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام کے سرحدی علاقوں میں مسلح کردوں کے خلاف ترک فوج کا آپریشن جاری ہے تاہم عالمی سطح پر اس کارروائی کے خلاف شدید ردعمل بھی سامنے آرہے ہیں۔ فوجی کارروائی کے آغاز پر ہی اسلامی جمہوریہ ایران نے سخت رد عمل دکھایا جس کے بعد ہالینڈ اور جرمنی  نے ترکی کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے معطل کردیئے تھے اور اب فرانس نے بھی اسلحے کی فروخت بند کردی ہے۔

  یورپی یونین نے اپنی انفارمیشن ویب سائٹ پر ایک بیان شائع کیا ہے جس میں کرد ملیشیا کے زیر انتظام علاقوں پر ترکی کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے تاکید کی گئی ہے اس اقدام کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے- اس یونین نے خبردار کیا ہے کہ شمالی شام پر ترکی کے حملوں سے، پورے علاقے میں امن و سلامتی کی صورتحال کمزورہوگی اور یہ حملے عام شہریوں کے مصائب وآلام میں اضافے اور ان کی مزید دربدری کا باعث بنیں گے- یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ شمالی شام میں ترکی کی کارروائی کو بند کرائے-

یورپی یونین کے ممالک نے اگرچہ پیر کے روز کے اجلاس میں یہ عہد کیا ہے کہ وہ ترکی کے مقابلے میں اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کریں گے تاہم وہ اس ملک کے خلاف ہتھیاروں کی ترسیل پر روک لگانے میں ناکام رہے ہیں اور آپسی اتفاق رائے نہ کرسکے- جبکہ جرمنی اور فرانس اس اجلاس میں ترکی کے خلاف ہتھیاروں کی فروخت بند کئے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے - یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک اس سلسلے میں باہمی اتفاق نہیں کرسکے ہیں-

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے بیان میں، ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ رکن ملکوں نے عہد کیا ہے کہ ترکی کو ہتھیار برآمد کرنے کی پالیسیوں کے تعلق سے اپنے قومی مواقف کو مستحکم کریں- واضح رہے کہ اسپین، آسٹریا، اور بلجیم نے بھی پیر کے روز جرمنی اور فرانس کے ساتھ مل کر، ترکی کو ہتیھیاروں کی فروخت بند کرنے کی حمایت کردی- فنلینڈ اور ہالینڈ نے بھی کہا ہے کہ وہ بھی جلد ہی اپنے ہتھیاروں کی فروخت سعودی عرب کے لئے بند کردیں گے- یورپی یونین کے سفارتکاروں کے بقول یہ پہلا اقدام ہے جو شمالی شام پر ترکی کے حملوں کے خلاف اور ان کارروائیوں کو بند کرنے کے مقصد سے انقرہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے اٹھایا جا رہا ہے-

جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ اس جنگ کی حمایت کریں اور اسی سبب سے ہم اپنے ہتھیار بھی ترکی کی دسترس میں قرار دینا نہیں چاہتے- فرانس کے وزیر خارجہ جان لودریان نے بھی کہا کہ ان حملوں سے وسیع پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوگا اور اسی بنا پر ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت کے مسئلے میں ٹھوس موقف اپنایا جائے- ادھر ترکی نے اعلان کیا ہے کہ کسی بھی صورت میں وہ اپنے حملے بند نہیں کرے گا-

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اگرچہ ترکی پر حملے کی متفقہ طور پر مذمت کے اعتبار سے مثبت تھا تاہم اس لحاظ سے کہ انقرہ کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے پر یہ یونین متحد نہ ہوسکی، اس کے منفی نتائج نکل سکتے ہیں- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کی ناکامی کی وجہ اس سلسلے میں یورپی یونین کے ملکوں کے درمیان پائے جانے والے مختلف نقطہ ہائے نگاہ ہیں- اگرچہ یورپی یونین کے جرمنی اور فرانس جیسے بڑے اور قدیم ممالک، شمالی شام پر ترکی کے حملے کے ٹھوس نتائج خاص طور پر پناہ گزینوں کی نئی لہر پیدا ہونے کے نتائج کے پیش نظر انقرہ کو ہتھیاروں کی فروخت روکے جانے کے خواہاں ہیں لیکن ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ یوریی یونین کے وہ ممالک جنہوں نے یہ اپیل نہیں کی ہے ان کے نقطہ نظر کی مختلف وجوہات ہیں-

اٹلی جیسے بعض ممالک ، کہ جو عالمی سطح پر ہتھیار برآمد کرنے والے ہیں، کے لئے اقتصادی تحفظات ترجیح رکھتے ہیں اور اسی سبب سے وہ ترکی جیسے ملکوں کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھنے اور ہتھیاروں کی قرارداد کے تحفظ کے خواہاں ہیں- اٹلی بھی جرمنی کے ساتھ ترکی کو ہتھیار فروخت کرنے والا اہم ملک ہے- ان ملکوں میں سے بعض دیگر جیسے ہنگری بھی کہ جو ایک دائیں بازو کی حکومت ہے سیاسی تحفظات کو ترجیح دیتا ہے اور وہ ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کی سطح میں کمی لانا نہیں چاہتا- یہ ممالک ترکی کے اقدامات کے بارے میں انفرادی طور پر اور صریح موقف اپنانے سے اجتناب کر رہے ہیں اور زیادہ تر یورپی یونین کے دائرے میں کلی موقف پر ہی اکتفا کر رہے ہیں-  

 

ٹیگس