امریکی ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے خلاف قرارداد مذمت منظور
شمالی شام سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے کے امریکی صدر ٹرمپ کے اقدام پر، کہ جو اس علاقے پر ترکی کے حملے راہ ہموار ہونے کا باعث بنا، امریکہ کے اندر منفی ردعمل سامنے آیا ہے-
امریکی ایوان نمائندگان نے اس سلسلے میں اپنے تازہ ترین موقف میں بدھ سولہ اکتوبر کو ، شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے ٹرمپ کے فیصلے پر، ایک قرارداد مذمت منظور کی- یہ مذمتی قراراداد ساٹھ مخالف ووٹوں کے مقابلے میں تین سو چون موافق ووٹوں سے منظور کرلی گئی- اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان ، شمالی شام کے علاقے سے امریکی فوجیوں کو باہر نکالے جانے کے ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتی ہے- امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین نے اس قرارداد میں ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ شام کی کرد ملیشیا کی حمایت کرے- اس قرارداد میں ترکی سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فورا اپنی کاروائیاں بند کردے-
واضح رہے کہ ترکی کی فوج نے گذشتہ ہفتے بدھ کے روز سے دہشت گردی سے مقابلے اور شام اور ترکی کی سرحد سے کرد ملیشیا کا صفایا کرنے کے بہانے سے، کہ جن کو انقرہ دہشت گرد کہتا ہے شمالی شام پر حملہ کردیا ہے- یہ کاروائیاں شمالی شام کے علاقے سے امریکی فوجیوں کو باہر نکالے جانے کے بعد ٹرمپ کے حکم سے شروع کی گئی ہیں شام کے کردوں نے امریکہ کے اس اقدام کو پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے تعبیر کیا ہے - اس لئے کہ یہ امریکہ کا ایک ایسا اقدام ہے کہ جس نے شام کے کرد نشیں علاقوں پر ترکی کے حملوں کے لئے راستہ ہموار کیا ہے- اوراس طرح سے ٹرمپ نے کرد ملیشیا کے ساتھ جو برتاؤ کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ اپنے علاقائی اتحادیوں کو محض ایک آلۂ کار کے طورپر دیکھتے ہیں اور صرف اسی وقت تک اپنے اتحادیوں کا ساتھ دیتے اور ان کو استعمال کرتے ہیں کہ جب تک ان سے امریکی مفادات پورے ہوتے ہوں-
کانگریس کے قانون سازوں خاص طور پر ڈموکریٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید کی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام اپنے اتحادیوں کو پیٹھ دیکھانے اور امریکی ساکھ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے کہ جس سے واشنگٹن کے اتحادیوں کا، امریکہ پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ اتحادی، امریکہ سے دوری اختیار کرکے روس اور چین جیسی دیگر بڑی طاقتوں کے قریب ہوجائیں گے- لیکن ٹرمپ نے ہمیشہ اپنے اس اقدام کا دفاع کیا ہے اور اسے بیہودہ اور بے فائدہ جنگوں سے نکلنے کے لئے امریکی مفادات میں قرار دیا ہے - ٹرمپ نے اٹلی کے صدرکے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ امریکی فوجیوں کو شام کے علاوہ دیگر ملکوں سے بھی نکال لینا چاہتے ہیں- امریکی صدر نے کہا کہ ہماری فوج بہت سے ملکوں میں تعینات ہے اور مجھے ان ملکوں کی تعداد بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے ان کی تعداد صحیح طور پر معلوم ہے لیکن یہ بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے کیوں کہ بہت احمقانہ اقدام ہے۔ ہم ایسے ملکوں میں بھی موجود ہیں اور وہاں کی حفاظت کر رہے ہیں کہ جو ہمیں پسند نہیں کرتے- اور وہ ہم سے غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں-
اس طرح سے امریکی صدر کی کوشش ہے کہ اپنے اتحادیوں کے درمیان اپنی ساکھ اور اعتماد برقرار رکھنے لئے، اس طرح سے اپنی خلاف ورزیوں کا جواز پیش کریں- لیکن ان وجوہات اور دلائل نے کسی کو بھی حتی اپنے داخلی حامیوں کو بھی مطمئن نہیں کیا ہے- ساتھ ہی یہ کہ امریکی فوجیوں کا نکل جانا ، واشنگٹن کے علاقائی اتحادیوں منجملہ صیہونی حکومت کے لئے تشویش کا باعث بنا ہے- امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپؤ نے کہا ہے کہ امریکہ نے شام میں جو پالیسی اپنائی ہے اس سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ لاحق نہیں ہے-
البتہ ٹرمپ کا یہ قول صرف ان علاقوں اور ملکوں پر صادق آتا ہے کہ جہاں امریکی فوجیوں کی موجودگی واشنگٹن کے لئے مادی و مالی مفادات کی ضامن نہ ہواور ان ملکوں سے امریکی مفادات پورے نہ ہوتے ہوں- درحقیقت ٹرمپ دنیا کے مختلف علاقوں سے امریکی فوجیوں کو نکالے جانے پر مبنی اپنے متعدد دعووں کے باوجود ان ملکوں میں ، کہ جنہوں نے امریکی فوجیوں پر بھاری رقم خرچ کی ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ بھاری فوجی و اقتصادی معاہدوں پر دستخط کر رہے ہیں، باقی رہنا چاہتے ہیں-اس مسئلے کا مکمل مصداق ، سعودی عرب کے لئے امریکہ کے تازہ دم فوجیوں اورفوجی سازوسامان کا روانہ کیا جانا ہے- ٹرمپ سعودی عرب کو ایک آلۂ کار کے طور پر دیکھتے ہیں اور انہوں نے بارہا سعودی حکومت کی توہین کرتے ہوئے اسے ایک دودھ دینے والی گآئے سے تشبیہ دی ہے کہ جسے اس وقت تک دوہتے رہو جب تک وہ دودھ دیتی رہے- ٹرمپ نے خود اس بات اعتراف کیا ہے اور اس سلسلے میں کہا ہے سعودی عرب نے ہمارے فوجیوں کی تعیناتی کے اخراجات دینا قبول کیا ہے- یہ وہ ثروتمند ممالک ہیں کہ جن کو پیسہ دینا چاہئے اور دیگر ملکوں کو بھی پیسے دینے چآہئے-