بریگزٹ کی مدت میں توسیع پر یورپی یونین کی موافقت
برطانوی وزیر اعظم بوریس جانسن کی جانب سے ایک مراسلے میں، یورپی یونین سے اس ملک کے نکلنے کی مدت میں توسیع کی درخواست پر، یورپی یونین نے کوئی واضح تاریخ معین کئے بغیر بریگزٹ کی مدت میں توسیع کا اعلان کردیا-
یورپی کمیشن کی ترجمان مینا انڈریوا نے یورپی یونین کے نمائندوں کے اجلاس کے اختتام پر کہا کہ یورپ کے ستائیس ملکوں اور دیگر ملکوں کے نمائندوں نے بریگزٹ کی مدت میں توسیع کی شرطوں کو قبول کرلیا ہے اس طرح سے یورپ کو چاہئے کہ وہ بریگزٹ کی نئی تاریخ کا تعین کرے اور پھر اس کا اعلان کرے-
یورپی یونین کے رکن ملکوں نے ایسی حالت میں اجلاس تشکیل دیا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم بوریس جانسن نے اس ملک کی پارلیمنٹ کے دباؤ اور یورپی کونسل کے نام مراسلے میں اپنے مطالبے کے باوجود، یورپ کی جانب سے بریگزٹ کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کردیا-
واضح رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں ہونے والی رائے شماری میں بورس جانسن کے بریگزٹ معاہدے کو دو سو ننانوے کے مقابلے میں تین سو انتیس ووٹوں سے منظوری دی گئی لیکن اس کے کچھ ہی دن بعد ہونے والی دوسری رائے شماری میں تین سو آٹھ کے مقابلے میں تین سو بائیس ووٹوں سے اس کی مخالفت کردی گئی ۔ اس طرح اکتیس اکتوبر دوہزار انیس تک ہر حال میں یورپی یونین سے برطانیہ کو نکال لینے کا بورس جانسن کا منصوبہ برطانوی پارلیمنٹ نے مسترد کردیا۔
اس وقت برطانوی پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان بریگزٹ پر اختلافات شدت اختیار کرگئے ہیں-بوریس جانسن نے قبل از وقت انتخابات کرائے جانے اور بغیر معاہدے کے بریگزٹ پر عملدرآمد کی دھمکی دی ہے- اس طرح سے کہ برطانوی وزیر اعظم نے اس ملک کی پارلیمنٹ کی ووٹنگ کے بعد، یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ ٹیلیفونی گفتگو میں کہا ہے کہ بریگزٹ میں تاخیر کے لئے لندن کی درخواست کے باجود، حکومت بدستور اکتیس اکتوبر کو ہی یورپی یونین سے نکلنے کے اپنے موقف پر قائم ہے- برطانوی وزیر اعظم کے دفتر کے ترجمان نے اس بارے میں کہا کہ جانسن نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ یورپی یونین سے اس ملک کے نکلنے میں تاخیر، دونوں فریق کے حق میں نہیں ہوگی-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ، انجام پانے والے معاہدے کی تفصیلات کا جائزہ لینے اور ایک بہتر سمجھوتے کے حصول کے لئے پھر سے مذاکرات کرانے کا مطالبہ کر رہی ہے- ان حالات میں جانسن کی جانب سے بریگزٹ کی مدت میں توسیع کی درخواست کا مراسلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ یورپی یونین کے ممالک نے ایک اجلاس تشکیل دے کر لندن کی درخواست کا جائزہ لیا ہے - خیال رہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ بریگزٹ کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے- بریگزٹ کے بحران میں شدت اس بات کا سبب بنی کہ یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے یورپی یونین کے سربراہوں سے درخواست کی کہ وہ بریگزیٹ کو ملتوی کئے جانے کی حکومت برطانیہ کی تجویز کی موافقت کریں-
اگرچہ یورپی یونین نے بریگزٹ کی مدت میں توسیع کی درخواست کی موافقت کردی ہے لیکن بریگزٹ کی مدت میں توسیع کا مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ یورپی یونین کے ملکوں کے درمیان اختلاف رائے بڑھ گیا ہے- ان میں سے بعض ممالک منجملہ فرانس نے بریگزٹ پر عملدرآمد کے لئے برطانیہ کو دو ہفتے کی مہلت دیئے جانے کا مطالبہ کیا ہے اسی سلسلے میں فرانسیسی صدر امانوئل میکرون نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دوہفتے سے کم مدت میں یورپی یونین سے نکل جائے لیکن بعض ممالک جیسے جرمنی اور آئرلینڈ ، لندن کو تین مہینے کی مہلت دینے کے حق میں ہیں-
بریگزٹ کے امور میں یورپی کونسل کے نمائندے میشل بارنیہ نے کہا ہے کہ بریگزٹ کے نفاذ کے لئے مزید مہلت دیئے جانے کے بارے میں فیصلہ کرنا یورپی یونین کے ستائیس ملکوں کے ذمے ہے اور یورپی کونسل کے سربراہ اس بارے میں تبادلۂ خیال میں مصروف ہیں-
اگر یورپی یونین جنوری دوہزار بیس کے اختتام تک بریگزٹ کے التوا میں ڈالے جانے پر رضامندی ظاہر کردیتی ہے تو امکان ہے کہ برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کرسمس سے قبل ہی منعقد ہوجائیں- البتہ برطانیہ کے سیاستداں یہ نہیں چاہتے اس لئے کہ اس سے بریگزٹ کا مسئلہ مزید پیچدہ ہوجائے گا اور اگر لندن کو مختصر مہلت دی جائے تو پھر جانسن کے مدنظر بغیر معاہدے کے بریگزٹ کا امکان بڑھ جائےگا- اس درمیان جانسن ابھی بھی اکتیس اکتوبر کو ہی برگزیٹ پر عملدرآمد کا امکان ظاہر کر رہے ہیں البتہ یہ ایک ایسا آپشن ہے کہ جس پر عملدرآمد کی صورت میں برطانیہ کی سیاسی و اقتصادی صورتحال ، ٹھوس خطرات سے دوچار ہوجائے گی-
ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ یورپی یونین اور برطانیہ دونوں کو آئندہ دنوں میں بریگزٹ کے تعلق سے سخت ودشوار حالات درپیش ہیں-