ناوابستہ تحریک کے اجلاس سے صدر روحانی کا خطاب، علاقے میں امن و صلح کی تقویت کی ضرورت پرتاکید
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حس روحانی نے ، باکو میں منعقدہ ناوابستہ تحریک کے ملکوں کے اٹھارہویں سربراہی اجلاس کو خطاب کرتےہوئے کہا کہ، بحرانوں سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے عوام کے حق کا احترام کیا جائے، ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے پرہیز کے اصول پر عمل کیا جائے، اور افہام و تفہیم اور مذاکرات کے لئے حالات کو سازگار بنایا جائے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے جمعے کو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں ناوابستہ تحریک کے اٹھارھویں سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ امریکا نے دوسرے ملکوں کے خلاف جنگ افروزی پراربوں ڈالر کا سرمایہ لگایا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ امریکا کی فتنہ انگیزی اور جنگ افروزی کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں ۔ درحققیت امریکہ کی یکطرفہ پالیسیاں ، جنگوں اور باہمی تنازعات میں شدت، علاقائی و بین الاقوامی تعلقات میں اختلاف پیدا ہونے اور تشدد میں اضافے نیز بہت زیادہ معاشی پسماندگی کا باعث بنی ہے- جیسا کہ صدر مملکت حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایک بڑی آبادی اور وسیع قلمرو کی حامل ناوابستہ تحریک کے ممالک اپنی اقتصادی و تجارتی گنجائشوں کے ذریعے، آسانی کے ساتھ دنیا میں طاقت کا ایک نیا مرکز اور بلاک قائم کرسکتے ہیں-
ماہرین کے نقطہ نگاہ سے ناوابستہ تحریک اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نمایاں گنجائشوں سے بہرہ مند ہے لیکن کچھ ایسی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکی ہے- سیاسی مسائل کے ماہر ابوالقاسم زادہ کہتے ہیں: باوجودیکہ مشرقی ایشیا کے ملکوں کےدرمیان، ٹھوس علاقائی معاہدے انجام پائے ہیں لیکن مغربی ایشیا کے ممالک بحرانوں اور جنگوں کے باعث، علاقائی معاہدوں کے ذریعے، علاقائی اتحاد قائم کرسکیں- باکو اجلاس میں صدرحسن روحانی کے خطاب میں بھی اس نکتے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جنگیں اور غاصبانہ قبضے ، ترقی و پیشرفت کےمواقع سلب کرنے میں ایسے مسائل ہیں کہ جو علاقے کے ملکوں پر مسلط کئے گئے ہیں-
چنانچہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ناوابستہ تحریک کے ایک سو بیس ملکوں کا کردار، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے- 1961 میں ناوابستہ تحریک نے اپنی تشکیل کے وقت سے ہی، بعض رکن ملکوں کی جانب سے بعض کمزوریوں کے باوجود، عالمی مسائل کے سلسلے میں بہت زیادہ کوششیں کی ہیں اور عالمی امن کے قیام کے تعلق سے اصولی مواقف اپناتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ہے- اس تحریک کے رکن ممالک، سیاسی پہلو کے علاوہ اقتصادی لحاظ سے بھی موثرسیٹ اپ تیار کر رہے ہیں کہ جو باہمی تعاون سے فعال علاقائی مراکز میں تبدیل ہوسکتے ہیں- اور یہ باہمی تعاون سیاسی شعبے میں بھی موثر اور مفید ہوگا-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے تاجیکستان میں، ایشیا میں باہمی تعاون اور اعتماد سازی کی تنظیم (CICA) سیکا کے پانچویں اجلاس میں شرکت کے موقع پر بھی ایران کے مواقف کو بیان کرتے ہوئے اس بارے میں کہا تھا کہ آج کی دنیا کے صورتحال کے پیش نظر، امن و صلح اور ثبات کے حصول کے لئے علاقائی سطح پر مذاکرات اور باہمی تعاون میں توسیع کی ضرورت ہے- صدر ایران نے اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اڑسٹھویں اجلاس میں ، " تشدد اور انتہاپسندی کے خلاف دنیا" کی تجویز پیش کی تھی کہ جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 2013 اور 2015 میں دو قراردادوں کی منظوری پر منتج ہوئی- اس سال کے جنرل اسمبلی اجلاس میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے، علاقے میں امن و ثبات کے قیام کے لئے، "ہرمز پیس فارمولہ" پیش کیا -
صدر ڈاکٹر حسن روانی نے مغربی ایشیا اور خلیج فارس میں قیام امن کے بارے میں کہا کہ ایران نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں علاقے میں امن و استحکام کے قیام کے لئے ، ہرمز پیس پلان پیش کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اس پلان کا مقصد آبنائے ہرمز اور خلیج فارس میں امن و آشتی اور ثبات و استحکام کی تقویت ، باہمی افہام و تفہیم وجود میں لانا اور اس کا فروغ اور خطے کے ملکوں کے درمیان آشتی اور دوستانہ روابط کی تقویت ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ ایران اپنے پڑوسی ملکوں کے امن و استحکام کو اپنے لئے امن واستحکام سمجھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران کے پڑوسیوں میں امن و استحکام دنیا کے لئے امن و استحکام کا ضامن ہے ۔ صدر ایران نے کہا کہ علاقائی امن و ترقی کا حصول ، پڑوسیوں کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے ۔