فرزند رسول حضرت امام علی النقی علیہ السلام
سحرعالمی نیٹ ورک کی جانب سے ہم اپنے تمام ناظرین ، سامعین اورقارئین کرام کی خدمت میں 15 ذی الحج ولادت با سعادت فرزند رسول حضرت امام علی النقی علیہ السلام کی مناسبت پرتبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔
حضرت امام ہادی (ع ) کی تاریخ ولادت کے بارے میں بعض مورخین نے ان کی ولادت 15 ذی الحجہ اور بعض نے 2 یا 5 رجب بتائي ہے،-
آپ ”نقی“ اور ”ہادی“ کے لقب سے مشہور تھے۔
-امام دھم کے والد گرامی کا نام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ مغربیہ ہے
امام علی النقی علیہ سلام ذیقعدہ سن 220 ہجری ، جب انکے والد گرامی" نویں امام" شھید کۓ گۓ میراث امامت کے اعتبار سے آپ امامت کے منصب پر فائز ہوۓ،
شایان ذکر ہے کہ جب امام ہادی(ع) امامت کے منصب پر فائز ہوۓ توآنحضرت کی عمر 8 سال 5 مہینے سے زیادہ نہ تھی،آپ(ع) اپنے والد کے مانند بچپن میں ہی امامت کےعظیم الھی منصب پر فائز ہوۓ،
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کا دور امامت،6 عباسی خلیفوں( معتصم ، واثق، متوکل ،منتصر ،مستعین ، اور معتز کے ھمعصر تھا۔
امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ ان خلیفوں کا سلوک مختلف تھا البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ہم عقیدہ تھے،جن میں سے متوکل عباسی (دسواں عباسی خلیفہ)اھل بیت اور خاندان امامت و علوی کے نسبت سب سے زیادہ دشمنی رکھنے میں نامدار تھا اور ھر طریقے سے انکو آزار و اذیت پہچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ، حد تو یہ تھی کہ آئمہ ہدی کی ہر یاد گار کو مٹانا چاہتا تھا، اماموں کی قبروں کو خراب کیا ، خاص کر قبر مطہر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ سلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو ویران کرنے اور وہاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔
آپ کی کچھ زندگی معتصم کے زمانہ میں گذری اور یہی وہ زمانہ تھا جس میں ”سرمن رائے“ تشکیل پائی۔
اس کے بعد واثق کا زمانہ آیا یہ وہ زمانہ تھا جس میں امام علیہ السلام اور خلیفہ کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں۔
اس کے بعد متوکل کا زمانہ آیا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جس میں اھل بیت (ع) سے علی الاعلان دشمنی اورمقابلہ کیا جانے لگا اور لوگوں کو ان سے منحرف کیا جانے لگا۔
اور جب مدینہ میں متوکل کے والی کو امام علیہ السلام کی شان وشوکت کو دیکھ کر اپنی حکومت کے ڈگمگانے کا خوف لاحق ہوا تو اس نے متوکل کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ امام علیہ السلام تیری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے متوکل نے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر سرمن رائے بلایا تاکہ آپ اورآپ کے اھل بیت وہاں پر رہیں اور لوگوں کارجحان آپ کی طرف سے ہٹ جائے ۔
چنانچہ امام علیہ السلام نے ان حالات کو دیکھ کر سفر کا ارادہ کرلیا اور سرمن رائے جانے کے لئے رختِ سفر باندھ لیا اور جب امام علیہ السلام متوکل کے تیار کردہ مکان میں پہونچے، چند روز رہنے کے بعد آپ نے اس کا مکان چھوڑ دیا اور اپنے مال سے ایک مکان خریدا تاکہ خلیفہ کے مہمان بن کر نہ رہیں ، یہی وہ مکان تھا جس میں آپ کو دفن بھی کیا گیا، جو آج بھی لاکھوں افراد کی زیات گاہ ہے۔
امام علیہ السلام نے مجبوراً سرمن رائے میں قیام فرمایا، یہاں تک کہ آپ کی شہادت واقع ہوئی کیونکہ ہمیشہ آپ کے خلاف سازش ہوتی رہی اورآپ کو ہر طرح کی اذیت دی جانے لگی، اس جرم میں کہ یہ ہماری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے اور ہماری حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔
ان تمام حالات کے بعد بھی خلیفہ کو جب بھی کوئی شرعی مشکل پیش آتی تھی تو وہ امام علیہ السلام کے پاس آکر پناہ لیتا تھا کیونکہ خلیفہ میں مسائل شرعی سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی اور نہ ھی وہ شرعی سوالات کا جواب دے سکتا تھا۔
متوکل نے امام کو سن 243 ھجری میں مدینہ منورہ سے نکلوا کر سامرا نقل مکانی کروائی اسطرح آنحضرت کو اپنے آبائی وطن سے دور کیا۔
حضرت امام علی النقی علیہ سلام کو سامرا " عباسیوں کے دار الخلافہ" میں 11 سال ایک فوجی چھاونی میں جلا وطنی کی حالت میں رکھا گیا اور اس دوران مکمل طور پر اپنے دوستوں کے ساتھ ملاقات کرنے سے محروم رکھا گیا۔ آخر کار 3 رجب اور دوسری روایت کے مطابق 25 جمید الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر شھید کیا گیا،
شھادت کے وقت امام علیہ سلام کے سر ھانے انکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام کے سوا کوئي نہ تھا،
اس وقت آنحضرت کا مرقد مطھر شھر سامرا میں ہے جہاں آپ (ع) کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام ، انکی بہن حکیمہ خاتون امام جواد علیہ سلام کی بیٹی اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ نرگس خاتون دفن ہیں،