۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام مبارک
سحرعالمی نیٹ ورک کی جانب سے ہم اپنے تمام ناظرین ، سامعین اورقارئین کرام کی خدمت میں ۴ شعبان ولادت با سعادت حضرت عباس علیہ السلام کی مناسبت پرتبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔
4 شعبان ولادت باسعادت حضرت ابوالفضل العباسؑ
حضرت عباسؑ کی عظمت کا ایک بہت بڑا سبب آپ کی امامؑ شناسی, ولایت کی معرفت اور اپنے زمانے کے امامؑ کی اطاعت ہے، حضرت امام صادقؑ حضرت عباسؑ کے زیارت نامے میں آپ کو خدا، رسول ﷺ و [ اپنے زمانے کے] آئمہ کے مطیع کے عنوان سے خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْسلام ہو آپ پر اے بندہ صالح ! اے اللہ، اس کےرسولﷺ، امیر المؤمنینؑ اور حسنؑ اور حسینؑ کے مطیع و فرمانبردار!( کامل الزیارات، ص 786 )
چار شعبان المعظم کی وہ شام کس قدر حسین و دلنواز شام تھی جب حضرت علی ابن ابی طالب کےکاشانۂ نور سے قمر بنی ہاشم کے طلوع کی خبر پھیلتے ہی مدینۂ منورہ کے بام و در جگمگا اٹھے حضرت علی علیہ السلام بڑے مشتاقانہ انداز میں گھر کے اندر داخل ہوئے اوراپنی” مستجاب تمنا“ کوآغوش میں بھر لیا بچے کا چہرہ چاند کی طرح دمک رہا تھا اللہ اکبر کی مترنم آواز کان میں پہنچی تو اسد اللہ کے پسر نے شیر حق کی گود میں انگڑائیاں لینی شروع کردی حضرت علی علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے ام البنین کی طرف دیکھا اور فرمایا : میں اس بچے کا نام عباس قرار دیتا ہوں ۔ اسی وقت قریب کھڑے امام حسین علیہ السلام آگے بڑھے اور باپ سے لے کر اپنے قوت بازو کواپنی باہوں میں سمیٹ لیا ، روایت میں ہے کہ ام البنین کے لال نےابھی تک آنکھیں نہیں کھولی تھیں جیسے ہی اپنے آقا حسین علیہ السلام کی خوشبو محسوس کی آنکھیں کھول دیں اور فرط مسرت و شادمانی سے فاتح کربلا کی آنکھیں چھلک آئیں ۔
ہے گود میں شبیر کے تصویر وفا کی
ا ک آنکھ ہے مسرور تواک آنکھ ہے باکی
ایثار و وفا کے پیکر ، علی(ع) کی تمنا ، ام البنین (ع) کی آس حسن (ع) و حسین (ع) کے قوت بازو زینب سلام اللہ علیہا و ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی ڈھارس، قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس(ع) کا یوم ولادت آپ سب کو مبارک ہو ۔
عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین
ام البنیں کا لال وہ حیدر کا نور عین
زینب (ع) کےدل کی آس سکینہ کے دل کا چین
صورت میں بوتراب تو کردار میں حسین (ع)
ایثار کا امام وفا کا رسول ہے
خوشبو بتا رہی ہے کہ عصمت کا پھول ہے
شبیر فخر کرتے تھے جس کی حیات پر
ہے ثبت جس کی پیاس دل کائنات پر
آب رواں گواہ ہے جس کے ثبات پر
قبضہ ہے جس کا آج بھی نہرفرات پر
اب تک جہاں میں جس کا علم سربلند ہے
اسلام جس کے خون کااحسان مند ہے
حضرت عباس (ع)کی عمر اس وقت 32 سال کی تھی جب امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا ہے تاریخ کی روشنی میں امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد 72 یازیادہ سے زیادہ سو، سواسو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد کم از کم تیس ہزار تھی مگر حضرت عباس (ع) کی ہیبت پورے لشکر ابن زیاد پر چھائی ہوئی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آنے والے تمام لوگ مرد ، عورت اور بچے سبھی پرچم عباس (ع) کے زیر سایہ سکون و اطمینان کااحساس کرتےتھے ۔ شجاعت ودلیری کے ساتھ شفقت و ہمدردی آپ کا خاصہ تھا اور امام وقت کی اطاعت و پیروی شجاعت و مہربانی ہر چیز پر غالب تھی ۔ جناب عباس (ع) کےعشق و معرفت سے سرشار قلب میں صرف ولایت حسین (ع) کی دھڑکن تھی اوران کی پاکیزہ طبیعت انوار توحید سے شعلہ فشاں تھی ۔ کربلامیں سیکڑوں ایسے موقع آئے جب علی علیہ السلام کے شیر کو غیظ و غضب میں دیکھ کر ”تاریخ“نے کروٹیں لینا چاہا لیکن امام وقت کی نگاہیں دیکھ کر مجسمۂ اطاعت نے اپنی شمشیر غضب کو نیام میں رکھ لیا چنانچہ فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے :
”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑا ہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔