May ۰۳, ۲۰۱۷ ۱۸:۱۸ Asia/Tehran
  • ایران میں صدراتی انتخابات اور انتخابی سرگرمیاں

معاشرے کو ہرج و مرج اور بدنظمی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ امور مملکت کو بہترین طریقے سے چلانے کی ذمہ داری کو عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی چھٹی شق میں بھی یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ امور مملکت کو عوامی خواہشات پر استوار ہونا چاہیے۔ صدر، پارلیمنٹ کے ارکان اور بلدیاتی کونسلوں کے ارکان کو عام انتخابات کے ذریعے چنا جائے اور انتخابی عمل کو عوامی خواہشات اور عزم کا مظہر بنایا جائے۔

ایران میں بارہویں صدارتی انتخابات کے لیے سیاسی عمل کا آغاز، گیارہ اپریل کو اس وقت ہوا تھا جب آئین کی نگراں کونسل نے عہدہ صدارت کے لیے چھے امیدواروں کی اہلیت کی توثیق اور ان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔ ایرانی سماج کے مختلف نظریاتی اور سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے صدارتی امیداورں کے درمیان انتخابی اکھاڑا پوری طرح سج چکا ہے۔

  یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ عہدہ صدارت کے لیے کھڑے ہونے والے امیدواروں کو موجودہ ایرانی سماجی مسائل اور مطالبات سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔

مسقبل میں جو بھی ملک، حکومت اور سرکاری اقتصادی شعبے کا ذمہ دار بنے گا، اسے پہلے ہی دن روزگار کے معاملے پر کمر کس لینا چاہیے۔ اس معاملے میں تاخیر بالکل جائز نہیں، پہلے ہی دن سے روزگار کے مسئلے پر توجہ دی جائے۔

  رہبر انقلاب اسلامی کی سفارشات کی روشنی میں معاشرے میں نوجوانوں اور روزگار کی فراہمی کی اہمیت کے پیش نظر، ملک کی فعال افرادی قوت یعنی نوجوانوں کے مسائل اور مشکلات تمام صدارتی امیدواروں کے منشور کا حصہ بن گئی ہیں۔

ایک صدراتی امیدوار سید مصطفی آقا میر سلیم ہیں، وہ ایران کے وزیر ثقافت اور ارشاد اسلامی رہ چکے تھے اور ان دنوں سرکاری مصالحتی کونسل کے رکن ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہمیں سب سے پہلے سرکاری اداروں سے کرپشن کو ختم کرنا ہوگا۔ اختیارات ایگزیکٹیو عہدیداروں کے ہاتھ میں ہیں اور شیطانی وسوسے وہیں سے شروع ہوتے ہیں، کیونکہ بیت المال مجریہ کے پاس ہے لہذا کرپشن کی روک تھام  بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

 ایک اور صدارتی امیدوار اسحاق جہانگیری ہیں جو سابق وزیر معدنیات اور موجودہ نائب صدر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ استقامتی معیشت ہی ایران کی معیشت کا پہیہ چلانے کا بہترین راستہ ہے۔ انھوں نے کوشش کی ہے کہ جس حد تک ان کے بس میں ہے، ملکی معیشت کو بہتر بنایا جائے۔ انھیں خوشی ہے کہ سن دو ہزار پندرہ اور سولہ کا عرصہ، ملکی معیشت کے لیے اچھا رہا ہے۔

ایک اور نامزد امیدوار، موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی بھی ہیں۔ وہ پانچ بار پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں اور قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اگر ہم، روزگار کے لیے ماحول سازگار بنائیں، تو یہ ملک کے نوجوانوں اور تمام ایرانیوں کے لیے بہتر ہو گا۔ ہم سب کو روزگار کے معاملے پر توجہ دینا ہو گی ، یہ سال روزگار کا سال، قومی پیداوار کا سال ہے، ہمیں صحیح منصوبہ بندی اور ٹھیک طرح سے کام کرنا ہو گا۔

سید ابراہیم رئیسی ایک اور صدارتی امیدوار ہیں۔ وہ ایرانی عدلیہ کے ڈپٹی چیف رہے ہیں اور اس وقت آستانہ مقدس رضوی کے متولی ہیں۔
سید ابراہیم رئیسی کہتے ہیں کہ آٹھویں ترقیاتی پروگرام میں حکم دیا گیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کو بارہ فی صد سے کم کر کے آٹھ فی صد تک لایا جائے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ یعنی اگر ہم نے دس  لاکھ اسامیاں سالانہ فراہم نہ کیں تو ملک کو بے روزگاری کے بحران سے نہیں نکالا جاسکے گا۔
 
ایران کے صدارتی امیدواروں میں محمد باقر قالی باف بھی شامل ہیں، وہ سابق انسپیکٹر جنرل پولیس اور تہران کے موجودہ میئر ہیں۔ وہ ایک زمانے میں کمرشل پائیلٹ بھی رہے ہیں۔
 محمد باقر قالی باف کہتے ہیں کہ ہمیں ملک میں کیپٹل گین کرنا ہو گا۔ سرمائے کو تحفظ فراہم کرنا ہو گا۔ ہمیں تاجروں اور صنعت کاروں کی حمایت کرنا ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں کے اس کے بغیر ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ممکن نہیں اور زیادہ تر آسامیاں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے فراہم کی جانا چاہئیں۔ ملک میں اسّی فی صد سے زیادہ نوکریاں پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہیں اور ہمیں پرائیویٹ سیکٹر کو مزید ترقی دینا ہوگی۔

سید مصطفی ہاشمی طبا بھی ایران کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہیں۔ وہ ایران کے وزیر صنعت اور محکمہ فزیکل ایجوکیشن کے چئیر مین بھی رہے ہیں۔
سید مصطفی ہاشمی طبا کا کہنا ہے کہ استقامی معیشت کا منصوبہ ایک ضرورت ہے اور مفید بھی ہے اور اس علمدرآمد اپنی جگہ پر، لیکن ہمیں روزگار کی فراہمی کے لیے کچھ اور بھی سوچنا ہو گا اور وہ سیاحت ہے۔ یہ صعنت ابھی خود کار نہیں ہے اور اس میں ہمیں ہوٹلوں اور دستکاری کی صنعتوں کو چلانے کے لیے افرادی قوت چاہیے، ڈرائیور، مترجم، گائیڈ اور  شیف وغیہر،  اور اگر ہم سیاحت کو فروغ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر روزگا کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہو جائے گا۔

انتخابات میں ایک طرف امیدوار اور ان کے پیش کردہ منصوبے ہیں تو دوسری طرف عوام ہیں۔ عوام کو انتخاب کرنے اور مطالبات کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی حق کی بنیاد پر عوام ہی ملک کے سیاسی مسقبل کے تعین میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں تمام صدارتی امیدواروں کو ایسے وعدے نہیں کرنا چاہئیں کہ جن پر عمل نہ کر سکیں۔ کیونکہ نعرے تو ہر کوئی لگا سکتا ہے۔

ایک اور صاحب کا کہنا ہے کہ مناظروں میں شریک تمام امیدواروں سے کہوں گا کہ عوام آگاہ ہیں اور صورت حال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ تمام پروگراموں کو غور سے دیکھتے ہیں۔ معیشت کا تعلق پوری قوم سے ہے اور معاملے پر گہری توجہ دی جائے۔ وہ اپنے اپنے منصوبے پیش کریں، کیونکہ  اوپر اوپر کی باتیں عوام کے کیا کام آئیں گی۔
 ایک اور شہری اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سیکورٹی کا معاملہ بھی اہم، اقتصادی سیکورٹی، افراط زر کو قابو میں کیا جائے، تاکہ بازار کے اتار چڑھاؤ کا خوف کھائے بغیر کاروبار شروع کیا جاسکے۔
ایک اور شخص کہتا ہے کہ  میں خوانچہ فروش ہوں، آئندہ صدر سے میری اپیل ہے کہ مجھے جاب سیکورٹی فراہم کریں۔
 

ایک اور شہری کہتا ہے کہ تمام امیدواروں سے میری خواہش ہے کہ وہ عوام سے صرف وہ وعدے کریں کہ جنہیں پورا کرنا ان کے بس میں ہو اور جو کام نہیں کر سکتے اسے زبان پر بھی نہ لائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریت ہی، حقیقی جمہوریت  ہے جو ایران میں قائم ہے اور عوام، پوری آزادی کے ساتھ، اپنی اپنی سیاسی اور نظریاتی سوچ کے مطابق من پسند صدارتی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اور کسی ایک شخص کو منتخب کر کے پوری حکومت اس کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔

ٹیگس