صدارتی انتخابات کی سرگرمیاں
ایران کے صدارتی انتخابات میں اب صرف دس روز باقی بچے ہیں جبکہ گذشتہ اٹھارہ دنوں سے امیدواروں کی انتخابی مہم جاری ہے۔
انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم تیز اور گہما گہمی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جبکہ امیدواروں میں رقابت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ہر امیدوار جہاں اپنا طرفدار بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے وہیں طرفداروں کی جانب سے مواقف کی بنیاد پر تشہیرات کا سلسلہ جای رہے۔ سوشل میڈیا پر کافی دنوں قبل سے ہی مہم شروع ہو چکی ہے۔ ذرائع ابلاغ عامہ کے علاوہ ریڈیو ٹی وی پر امیدواروں کو برابر کا موقع دیا جا رہا ہے تاکہ صدارتی امیدوار اپنے پروگراموں کی وضاحت کرسکیں اور ووٹروں کو اپنی جانب راغب کر سکیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی کافی تشہیرات ہو رہی ہیں اور ہر امیدوار وقت اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مفاد میں ہر قسم کے جائز حربے استعمال کرتا نظر آ رہا ہے۔ چھے صدارتی امیدواروں میں سے اب تک ابراہیم رئیسی اور ڈاکٹر حسن روحانی کئی صوبوں کے دورے کر چکے ہیں جنھوں نے عوامی جلسوں سے اپنے خطاب میں اپنے پروگراموں کی مکمل تشریح کی ہے۔ بعض دیگر صدارتی امیدواروں منجملہ محمد باقر قالیباف اور میر سلیم نے بھی منگل کو اپنے پہلے صوبائی دورے کئے جبکہ دیگر امیدواروں نے صرف ریڈیو ٹی وی کے پروگراموں اور طلبا کے ساتھ نشستوں پر ہی اکتفا کیا ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی چھٹی شق میں صدارتی امیدواروں کی حد و حدود کو واضح کیا گیا ہے اور انتخابات شفاف کرائے جانے پر تاکید کی گئی ہے اور اس شق میں ریڈیو ٹی وی سمیت تمام سرکاری ذرائع ابلاغ کا یہ فرض معین کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کی طرفداری نہیں کریں گے اور کسی امیدوار کے خلاف کوئی بات نہیں لکھیں گے تاہم غیر سرکاری اخبارات و جرائد کو جن میں بیشتر کسی نہ کسی حزب و گروہ سے وابستہ ہیں قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اپنے منظور نظر امیدوار کے دفاع میں مضمون و مقالے لکھے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔قانون کے مطابق سرکاری اخبارات کو اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ وہ انتخابات کے بارے میں مجموعی طور پر تجزیہ پیش کر سکتے ہیں۔ ان اخبارات میں امیدوارروں کی جانب سے پیش کئے جانے والے نکات پر تبصرے بھی کئے جا سکتے ہیں اور امیدواروں کی جانب سے پیش کئے جانے والے حکومت کے پروگراموں اور طریقوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔امیدواروں کی جانب سے مختلف سطح پر جلسے، نشستیں اور اجتماعات سے خطاب کا سلسلہ جاری ہے اور وہ ایک دوسرے کے پروگراموں پر تنقید اور اپنے پروگراموں کی خصوصیات بیان کر رہے ہیں، عوام کی جانب سے بھی امیدواروں سے مختلف قسم کے سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہمیشہ انتخابات کے پرشکوہ اور منصفانہ انعقاد تاہم سماج کو دو حصوں میں تقسیم کئے جانے سے اجتناب کی ضرورت پر تاکید فرمائی ہے۔آپ نے تقریبا بارہ سال قبل صوبہ کرمان کے طلبا سے اپنے ایک خطاب میں سماج و معشرے کو دو حصوں میں اس طریقے سے تقسیم کئے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے فرمایا کہ دو دھڑے یقینا ملک کے لئے دو پروں کی مانند ہوتے ہیں کہ ملک، ان دو پروں کے سہارے پرواز کر سکے اور اس طرح کے دھڑے سرگرم عمل بھی ہو سکتے ہیں بشرطیکہ بنیادی آئین کے وفادار رہیں اور ان میں صحیح و منطقی رقابت پائی جائے۔ اس لئے کہ منطقی رقابت سے ترقی و پیشرفت کی راہ پیدا ہوتی اور انتظامیہ کی راہیں بند ہونے کی روک تھام ہوتی ہے صحیح و منطقی رقابت مناسب و اچھی بات ہے مگر اسے قانون کے دائرے میں اور نظام کے مفاد میں ہونا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ وہ خود اصول پرست اور اصلاح پسند پر مشتمل تقسیم کے بھی حق میں نہیں ہیں اور وہ اسے غلط سمجھتے ہیں۔