ایران نے ہیوی واٹر اور یورینیم کی فروخت کو روک دیا
اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کی جوہری معاہدے سے غیرقانونی علیحدگی کے جواب میں ہیوی واٹر اور افزودہ یورونیم کی فروخت کو 60 دن کے لئے روکنے کا باضابطہ اعلان کردیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کےصدرحسن روحانی نے آج صبح تہران میں اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہ امریکہ کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کو پاوں تلے روندنے کو آج ایک سال کا عرصہ ہو گیا ہے اس لئے جوہری معاہدے کے رکن ممالک سے ہم نے کہا ہے کہ ہیوی واٹر اور افزودہ یورونیم کی فروخت کو روک رہے ہیں۔
ایران کےصدرنے کہا کہ ہم نے جوہری معاہدے کے رکن ممالک ( برطانیہ،فرانس،جرمنی ،روس اور چین) سے کہا ہے کہ تمہارے پاس 60 دن کی مہلت ہے اور اس عرصے میں آئیں اور مذاکرات کریں اور اگر اس مدت میں ایران اپنے معاشی ثمرات حاصل کرلے خاص طور سے تیل اور بینکاری پابندیاں ختم ہوجائیں تو ہم اپنی پہلی والی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے اور اگر ان 60 دنوں میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا تو ایران مزید دو اور فیصلے کرے گا ۔
صدرحسن روحانی کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یورنیئم کی افزودگي3.67 تک ہو گي لیکن اب ہم اس سے صرف نظر کر رہے ہیں یعنی اس کے بعد یورونیم کی افزودگی میں کوئی حد نہیں ہوگی اوراراک ہیوی واٹر ری ایکٹر کے بارے میں بھی 60 دن کے بعد فیصلہ کریں گے کہ جوہری معاہدے سے پہلے والے پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔
ایران کےصدرنے ایک بار پھر متنبہ کیا کہ ہم نے جوہری معاہدے کے ممالک کو بھیجے جانے والے مراسلے میں واضح طور پر کہا ہے کہ اگر ان ممالک نے ہمارے آج کے اقدام کو بہانہ بنا کر ایران کے کیس کو سلامتی کونسل میں بھیجنے کی کوشش کی تو اس کا سخت رد عمل سامنے آئے گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ ایران نے کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کی تاہم ایران کبھی بھی منہ زوری کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اس سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کل روسی دارالحکومت ماسکو پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاتھا کہ ایران، بالکل جوہری معاہدے کے اصولوں کے مطابق عمل کرے گا اور یہ بات جوہری معاہدے کے دوسرے اراکین کیلئے ایک موقع فراہم کرتی ہے تا کہ وہ بھی اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل کریں اور صرف بیان جاری کرنے پر انحصار نہ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوہری معاہدے کی شق نمبر 26 اور 36 کے مطابق اگر اس معاہدے کے اراکین میں سے کوئی اپنے کیے گئے وعدوں پر نہ عمل نہ کریں تو دوسرے اراکین بھی مجموعی اور جزوی طور پر اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے کا جواز رکھتے ہیں۔
جواد ظریف نے گزشتہ ایک سال کے دوران، بالخصوص جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد امریکی اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ اس بین الاقوامی معاہدے کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس عرصے کے دوران، امریکہ کی اس پالیسی سے واقف ہونے کے باوجود صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یورپی یونین اور عالمی برادری کے دیگر اراکین، امریکی دباؤ کے سامنے مزاحت کرنے میں بے بس نظر آئے تھے۔