یورپی ملکوں کی وعدہ خلافی پر ایران کا ٹھوس جواب
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے تین یورپی ملکوں کی جانب سے نیوکلیر ڈسپیوٹ مکینزم کو فعال کرنے کے اعلان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس اقدام کو یورپ کی کمزوری اور ناتوانی کا علامت قرار دیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ تینوں یورپی ملکوں کی وعدہ خلافی اور غیر تعمیری اقدامات کا ٹھوس اور پھربور جواب دیا جائے گا۔
جرمنی، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل یورپی ٹرائیکا نے منگل کو ایک بیان جاری کرکے اعلان کیا ہے جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے موجود نیوکلیر ڈسپیوٹ میکینزم کو فعال کردیا گیا ہے۔
مذکورہ تین یورپی ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھتیس کے تحت نیوکلیر ڈسپیوٹ میکینزم کو فعال کرنے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب اسلامی جمہوریہ ایران کئی ماہ پہلے سے مذکورہ شق کے تحت اپنے حقوق کی بالادستی کا عمل شروع کرچکا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے واضح کیا ہے کہ وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے تقریبا سوا سال قبل جامع ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے کوآرڈینیٹر کے نام خط لکھ کر نیوکلیر ڈسپوٹ میکینزم کو فعال کردیا تھا، لہذا یورپ کے اعلان سے نہ تو کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے اور نہ ہی کوئی نیا عمل شروع ہوا ہے۔
ایٹمی معاہدے میں شامل یورپی ملکوں نے تاحال نہ تو ایٹمی معاہدے میں درج اور نا ہی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران سے کیے جانے والے وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی واضح اور مکمل طور سے عمل نہیں کیا ہے۔
جامع ایٹمی معاہدے کی شق چھتیس میں آیا ہے کہ اگر ایران یہ محسوس کرے کہ پانچ جمع ایک گروپ کا کوئی بھی رکن ملک یا تمام ممالک اپنے وعدوں پر عملدرآمد سے پہلو تہی کر رہے ہیں تو ایران اس معاملے کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کمیشن میں پیش کرسکتا ہے اور اسی طرح اگر پانچ جمع ایک گروپ کا کوئی بھی رکن یہ محسوس کرے کہ ایران نے اپنے وعدوں عمل نہیں کیا ہے تو وہ ایسا ہی کرسکتا ہے۔
اب یورپی ملکوں نے اپنے بیان میں دعوی کیا ہے کہ نیوکلیر ڈسپیوٹ میکینزم کا آغاز نیک نیتی کی بنیاد پر ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی غرض سے انجام پا رہا ہے اور انہیں امید ہے کہ تعمیری سفارتکاری کے ذریعے موجودہ تعطل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرلیا جائے گا۔ مذکورہ ممالک نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے ایران کے خلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے۔
ادھر عالمی اداروں اور معاہدوں میں روس کے نمائندے میخائل اولیانوف نے تین یورپی ملکوں کے اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یورپ کا یہ اقدام جامع ایٹمی معاہدے کی موجودہ صورتحال کو مزید پیچیدہ کرنے کا سبب نہیں بنے گا۔
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے اس شرط پر معاہدے میں باقی رہنے کا اعلان کیا تھا کہ باقی ماندہ ممالک ایٹمی معاہدے میں درج ایران کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ لیکن تقریبا دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ایٹمی معاہدے کے یورپی ملکوں نے اپنے وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے کوئی بھی قابل ذکر کام انجام نہیں دیا۔ یہی وجہ تھی ایران نے ایٹمی معاہدے کے تحت حاصل حق کے مطابق ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں کمی کے ساٹھ روزہ میکینزم پر عملدرآمد کا آغاز کیا جس پر پانچ مرحلوں میں عملدرآمد کیا گیا۔ ایران نے پانچ جنوری کو ایک بیان جاری کرکے اعلان کردیا کہ آج کے بعد سے وہ اپنے ایٹمی پروگرام پر عائد کسی بھی حد کا پابند نہیں ہے۔ایران نے واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو ملک کی فنی اور اقتصادی ضروریات کے مطابق آگے بڑھائے گا جبکہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کا سلسلہ بدستور جاری رکھے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران پہلے بھی کئی بار واضح کرچکا ہے کہ وہ نیک نیتی کا جواب نیک نیتی سے دے گا لیکن ایٹمی معاہدے میں شامل ملکوں کی وعدہ خلافیوں اور غیر تعمیری اقدامات کا پوری قوت کے ساتھ ٹھوس اور مستحکم جواب دے گا۔