Jul ۰۲, ۲۰۲۰ ۲۱:۰۸ Asia/Tehran
  • ہتھیاروں کی پابندی کی ممکنہ توسیع کے جواب میں ایران کے آپشن کیا ہیں؟

اقوام متحدہ اپنے صیہونی اور بعض عرب اتحادیوں کی مدد سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کی مدت میں توسیع کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ ایران، روس اور چین نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائے گا؟ اور اس پر ایران کا ممکنہ جواب کیا ہوگا؟

ان سوالوں کے جواب میں کہنا چاہیے کہ ایٹمی سمجھوتہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231  کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ ایران کے خلاف ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی میں صرف سلامتی کونسل ہی توسیع کر سکتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بعض ممالک، ایران کے خلاف ہتھیاروں کی اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی امریکا کے غیر قانونی اقدامات کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں اور کچھ بالواسطہ طور پر اپنی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں۔

دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس بہت سے قانونی راستے ہیں اور عملی طور پر اس کے ہاتھ زیادہ کھلے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر صدر حسن روحانی نے پانچ ممکنہ اقدامات کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ ایران کو یورپ کی جانب سے امریکا کی منہ زور پالیسیوں سے فاصلہ بنانے کی امید ہے اس لیے، اس نے اب تک کوئي جوابی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ امریکا یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران، خطے اور دنیا میں عدم استحکام کی جڑ ہے لیکن ایران نے اپنی سفارتی کوششوں سے امریکا کے اس دعوے کو غط ثابت کر دیا ہے بلکہ اس نے نہ صرف امریکا کے حقیقی چہرے کو اور خطے میں اس کے تخریبی کردار کو دنیا کے سامنے برملا کر دیا ہے بلکہ اس کی جانب سے انسانی حقوق اور ملکوں کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزیوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔

بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس کے تیز پھیلاؤ، اس ملک میں نسل پرستی کے خلاف ملک گير مظاہرے اور ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کی توسیع میں امریکا کا ساتھ دینے یا نہ دینے بعض یورپی ملکوں کی کشمکش کے سبب امریکا، یورپی ملکوں سے اس سلسلے میں اپنا مطالبہ منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یورپی ممالک ایٹمی سمجھوتے کی حمایت کرتے ہیں اور اس معاہدے کی پہلی شق میں ہی ایران کے خلاف عائد اسلحہ جاتی پابندیوں کے پانچ سال بعد یعنی اکتوبر سن دو ہزار بیس میں خاتمے کی بات کہی گئي ہے۔ بنابریں یورپی ممالک صرف امریکی دباؤ کی وجہ سے اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔

المختصر یہ کہ اگر امریکا، اپنے بے تحاشا دباؤ کے سبب سلامتی کونسل کے رکن یورپی ملکوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب بھی ہو گیا تب بھی روس اور چین کا ویٹو تیار ہے اور یہ امریکا کے لیے اور بڑی مشکل ہے کیونکہ یہ ویٹو فرانس اور جرمنی جیسے یورپی ملکوں کو بہت زیادہ پریشانی میں ڈال دے گا۔

ٹیگس