امریکا ایٹمی معاہدے سے نکلا تھا واپسی میں پہل کیوں نہیں کرتا، رکن کانگریس کا سوال
امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹ رکن نے کہا ہے کہ جب امریکہ ایٹمی معاہدے سے پہلے نکلا ہے تو معاہدے میں پہلے واپس بھی اسے آنا چاہیے۔ دوسری جانب ایران کے نائب وزیر نے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی پابندیوں کے خاتمے سے مشروط ہے۔
ایوان کی نمائندگان کی سینیر رکن الھان عمر نے خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ فریقین اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ فریق مقابل پہل کرے اور یہ صورتحال ہمیں بند گلی میں لے گئی ہے۔
الھان عمر نے امریکی وزیر خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ، حقیقت یہ ہے کہ ہم ہی وہ فریق تھے جس نے ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے سےعلیحدگی اختیار کی تھی، تو کیا معاہدے میں واپسی کے لیے پہل ہمیں نہیں کرنا چاہیے؟
انہوں نے مزید آگے بڑھ کر امریکی وزیر خارجہ سے پوچھا کہ اگر ہم ایٹمی معاہدے میں واپس نہیں جائیں گے تو ایران سے ایٹمی معاہدے کی پاسداری کی توقع کیسے کر رہے ہیں؟ کیا امریکہ کو ایٹمی معاہدے میں ایران سے پہلے واپس نہیں آنا چاہیے۔
امریکہ کی نئی حکومت نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے میں واپس آنا چاہتی ہے تاہم اس کی واپسی ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد سے مشروط ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے سے نکلا نہیں بلکہ اس نے امریکہ اور یورپی ملکوں کی عہدشکنی کے جواب میں اس معاہدے پرعملدرآمد روک دیا ہے جبکہ امریکہ نے سن دوہزار اٹھارہ میں ایٹمی معاہدے سے باقاعدہ علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینئیر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ صرف پابندیوں کے خاتمے کی صورت میں ہی ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کرے گا۔
سید عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ ایٹمی معاہدے میں واپس آجائے اور تمام پابندیوں کو اٹھا لے تو ایران اپنے حصے کے اقدامات پر دوبارہ عملدرآمد شروع کردے گا ۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئرایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لیے کوئی اجلاس بلانے کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ پابندیوں کا عملی طور پر خاتمہ ضروری ہے۔
سید عباس عراقچی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایٹمی معاہدے سے متعلق کسی بھی اجلاس میں امریکہ کی شرکت ، پابندیوں کے خاتمے سے مشروط ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ نے ایٹمی معاہدے میں واپسی سے گریز کیا تو پھر اس کے مستقبل کا فیصلہ چار جمع ایک گروپ کرے گا۔
ایران کے نائب وزیرخارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ہم نے جو قدم بھی اٹھایا ہے وہ ملکی تقاضوں اور ایٹمی معاہدے کے عین مطابق ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کسی بھی طرح کا براہ راست رابطہ نہیں ہے اور فریقین کے درمیان پیغامات کا تبادلہ صرف سوئزرلینڈ کے چینل کے ذریعے ہی انجام پا رہا ہے۔