ایران چین تعاون پر امریکہ کو تکلیف کیوں ؟
امریکی صدر جوبائیڈن نے ایران اور چین کے درمیان ہونے والے پچیس سالہ معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اپنے ملک کے لیے تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔
فارس نیوزایجنسی کے مطابق ایران چین پچیس سالہ معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایک عرصے سے تہران - بیجنگ شراکت داری پر تشویش میں مبتلا ہیں۔
صدر جوبائیڈن کا ردعمل سامنے آنے سے پہلے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا تھا کہ تہران بیجنگ معاہدے نے واشنگٹن کی ان کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے وہ دنیا میں ایران کو تنہا کرنے کی غرض سے ایسان کرتا آیا ہے۔
امریکی جریدے بلومبرگ نے بھی ایران چین معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے اہم چیلنج ثابت ہوگا۔
پچیس سالہ پروگرام کے نام سے موسوم ایران چین تعاون کے جامع اسٹیریٹیجک سمجھوتے پر ہفتے کے روز تہران میں وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف اور چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے دستخط کیے ہیں۔ سمجھوتے کے تحت ایران اور چین کے درمیان اقتصادی اور ثقافتی شعبوں سمیت تمام میدانوں میں موجود گنجائشوں سے فائدہ اٹھانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
دوسری جانب ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے کہا ہے کہ مشرقی ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون دنیا میں امریکی بالادستی کے خاتمے کا راستہ ہموار کرے گا۔
ایران چین اسٹریٹیجک معاہدے کے بارے میں امریکی صدر جوبائیڈن کے اظہار تشویش پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے علی شمخانی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ تہران اور بیجنگ کے درمیان طے پانے والا پچیس سالہ تعاون کا روڈ میپ، فعال استقامت کی پالیسی کا حصہ ہے۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری کا کہنا تھا کہ دنیا صرف مغرب تک محدود نہیں جبکہ مغرب بھی صرف قانون شکن امریکہ اور اس کے عہد شکن تین اتحادی ممالک تک محدود نہیں ہے ۔
علی شمخانی کا اشارہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب تھا جو ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے میں شامل ہیں لیکن انہوں نے بھی اس معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں پر آج تک عمل نہیں کیا ہے اور امریکا کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔علی شمخانی نے مزید کہا کہ امریکی صدر کی پریشانی بالکل ٹھیک ہے کیونکہ دنیا کے مشرقی خطے میں اسٹریٹیجک تعاون کا فروغ امریکی بالادستی کے خاتمے کا عمل تیز کردے گا۔