تمام پابندیاں ختم ہونے کی صورت مین ایران بھی معاہدے پر مکمل عمل درآمد شروع کرے گا
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک بار پھر زور دے کر کہا ہے کہ اگر امریکہ تمام پابندیوں کو منسوخ کردے تو تہران بھی اپنے وعدوں پردوبارہ عمل درآمد شروع کردے گا اور امریکی صدر بائیڈن بیک وقت دو آپشن اختیار نہیں کرسکتے -
ایران کے نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے این ایچ کے ٹی وی چینل کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم صحیح راستے پر چل رہے ہیں اورمذاکرات کا ماحول تعمیری اور مثبت ہے ۔
ایران کے سینئیر ایٹمی مذاکرات کار اور نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتہ بحال کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کو ختم کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں رکھتی ۔
عراقچی کا کہنا ہے کہ ایران کا موقف یہ ہے کہ اگر امریکہ چاہے تو ایٹمی سمجھوتے میں واپس آجائے لیکن اسے ایٹمی سمجھوتے سے متعلق پابندیوں کے ساتھ ہی سابق حکومت کی عائد کردہ تمام پابندیوں کو بھی یکسر ختم کرنا ہوگا۔
نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے کی خلاف ورزی کے مقابلے میں ایران کی جانب سے بیس فیصد یورے نیئم کی افزودگی اوراعلی کارکردگی کے حامل سینٹری فیوج مشینوں کے استعمال جیسے اقدامات کواس مرحلے میں روکا نہیں جائے گا اور اگر امریکہ تمام پابندیاں منسوخ کردے تو ایران بھی معاہدے پرعمل کرے گا۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ نے زور دے کر کہا کہ جاپان کی حکومت نے ہمیشہ ایٹمی سمجھوتے کے سلسلے میں ہونے والے مذاکرات کی حمایت کی ہے ۔
انہوں نے اس بات پرزور دیتے ہوئے کہ ایران چاہتا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے پر مو بہ مو عمل کیا جائے کہا کہ پابندیاں منسوخ کرنے کے سلسلے میں بھی ایران کا موقف معقول و منطقی ہے ۔
واضح رہے کہ ویانا میں ایران اور گروپ چار جمع ایک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس سلسلے میں چند روز بعد ایک اہم اجلاس بھی ہونے والا ہے-
درایں اثنا ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکہ بیک وقت دوآپشن اختیار نہیں کرسکتا ۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ امریکی صدر بائیڈن ایک ساتھ دو آپشن استعمال نہیں کر سکتے۔
ترجمان وزارت خارجہ خطیب زادہ نے کہا کہ بائیڈن یا ایٹمی سمجھوتے کی پابندی کریں یا سابق امریکی صدر ٹرمپ کی من گھڑت و جعلی پابندیاں برقرار رکھیں۔
واشنگٹن مئی دوہزار اٹھارہ میں امریکی صدر ٹرمپ کے دور صدارت میں یکطرفہ اور غیرقانونی طور پرایٹمی سمجھوتے سے باہر نکل گیا تھا اور اس کے بعد اس نے ایٹمی پابندیوں کے ساتھ ہی تہران کے خلاف بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کردیں ۔
امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن نے ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کی واپسی کی خواہش ظاہر کی ہے تاہم اب تک ان کی حکومت نے ایٹمی سمجھوتے میں واپسی کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا ہے۔