May ۰۹, ۲۰۲۱ ۱۶:۲۶ Asia/Tehran
  • ایران پابندیوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، اسپیکر قالیباف

ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد باقر قالیباف نے کہا ہے کہ تہران تمام پابندیوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے۔

اتوار کو پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، اسپیکر محمد باقر قالیباف کا کہنا تھا کہ رہبرانقلاب اسلامی کی جانب سے مقرر کردہ پالیسی کے تحت، ہم پابندیوں کا مکمل، عملی اور فوری خاتمہ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام پابندیاں مکمل طور پر اٹھا لیے جانے اور ان کے اقتصادی اثرات علمی طور پر سامنے آجانے کے بعد ایران ایٹمی معاہدے پرعملدرآمد دوبارہ شروع کرنے میں ذرہ برابر تاخیر نہیں کرے گا۔

ایرانی پارلیمنٹ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ دشمنوں کو جان لینا چاہیے کہ ہماری قوم پابندیوں کے خاتمے کی کوشش ضرور کر رہی ہے تاہم ان کے اقدامات کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہے ۔

ڈاکٹرمحمد باقر قالیباف نے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ناجائز مطالبات اور مذاکرات میں روڑے اٹکانے کے بجائے، اپنے وعدوں پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے، پابندیوں کے خاتمے میں تاخیر سے گریز کریں کیونکہ ایسی صورت میں ایٹمی معاہدے میں ان کی واپسی کا تاوان مزید سنگین ہوتا جائے گا۔

اسپیکر پارلیمنٹ نے ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم پر زور دیا کہ وہ رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے دی جانے والی پالیسی پر سختی کے ساتھ گامزن رہے۔

محمد باقر قالیباف نے شہید قاسم سلیمانی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ، انہوں نے فوجی اور سفارتی طاقت کے درمیان ہماہنگی پیدا کرکے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنادیا اور اس طرح ملک کو عظیم سفارتی طاقت سے بہرہ مند کیا۔

انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے اسٹریٹیجک قانون کی منظوری نے ملک کی ایٹمی صنعتوں میں پڑے تالے کھول دیئے ہیں اور مذاکراتی ٹیم کو مذاکرات کے لیے لازمی گنجائش اور طاقت عطا کردی ہے۔

محمد باقر قالیباف نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران کے تمام اعلی سطحی عہدیداران رہبرانقلاب اسلامی کی قیادت میں ایک پیج پر ہیں اور اس اتحاد نے دشمن کے ناجائز مطالبات کا راستہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ایک ٹوئٹ میں امریکہ کو ایٹمی معاہدے کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار قرار دیا ہے۔

وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ آج ہم ویانا میں ایٹمی معاہدے کی بحالی میں مصروف ہیں لیکن میں یہ یاددھانی کرانا چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ شروع کیسے ہوا۔

ایران کے وزیر خارجہ نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے آٹھ مئی دوہزار اٹھارہ کو ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ، اس رسوائے زمانہ بہروپیے نے تین سال قبل ایٹمی معاہدے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کا آغاز کیا تھا۔

ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور پابندیوں کے دوبارہ آغاز کے بعد ایران نے ایٹمی معاہدے سے مرحلہ وار پسپائی کا آغاز اور آخر کار اس کو معطل کردیا تھا۔

ایران نے یہ بات واضح کردی ہے کہ، وہ صرف اسی صورت میں ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عمل درآمد شروع کرے گا جب تمام امریکی پابندیاں ختم ہوجائیں گی اور تہران کو پابندیوں کے عملی طور پر خاتمے کا یقین حاصل ہوجائے گا۔

 

ٹیگس