ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت پر یورپی سربراہوں کی تاکید
یورپی یونین میں شامل مختلف ملکوں کے سربراہوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ہونے والی نشست کے اختتام پر اپنے مشترکہ بیان میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے ہونے والے ویانا مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کا ایک حیات بخش پہلو ہے۔
یورپی یونین میں شامل مختلف ملکوں کے سربراہوں نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ہونے والی نشست کے اختتام پر اپنے مشترکہ بیان میں جس کی ایک کاپی یورپی یونین کی جانب سے انٹرنیٹ پر بھی جاری کی گئی ہے، کہا ہے کہ اس بات کے لئے ہماری سفارتی کوششیں جاری ہیں کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کو آسان بنانے کے مقصد سے ویانا مذاکرات کا عمل مسلسل کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہے اور ہم ایران اور امریکہ کی جانب سے اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل کئے جانے کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ، اس بات کو سمجھتے ہیں کہ فریقین کی جانب سے اس معاہدے میں مکمل طور پر عمل کئے جانے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایران کے خلاف اہم ترین پابندیاں ختم کی جائیں۔
اس بیان میں بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر علیحد گی کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر ایران کی جانب سے اپنے رضاکارانہ وعدوں پر عمل سے پسپائی پر اظہار تشویش کیا گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ ایران کے ایسے اقدامات ہمارے لئے باعث تشویش ہیں جو ایٹمی معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتے۔
دریں اثنا ایٹمی مذاکرات میں یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر انریکہ مورا نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ طے شدہ ہدف کے مطابق ایک معاہدے کے حصول سے ہم بہت قریب ہو چکے ہیں تاہم اس بات کا ابھی اعلان نہیں کیا جا سکتا کہ مذاکرات کا یہ دور اب آخری دور ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ جمعے کے روز ہونے والے ایران کے صدارتی انتخابات اور انتخابات کے نتائج کے اعلان سے مذاکرات کے عمل پر کوئی اثر پڑے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ابھی چند گھنٹے قبل امریکہ کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ بعض مسائل ابھی حل نہیں ہوئے ہیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ نے بھی اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ سسٹم کے تحت ایران ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر کاربند نہیں رہا ہے اور لندن اپنے یورپی شریک ملکوں اور امریکہ کے ساتھ مل کر اور روس و چین کو ساتھ لے کر راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے، ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے میں مکمل واپسی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
لندن نے ایسی حالت میں ایٹمی معاہدے کا تحفظ کئے جانے کی بات کہی ہے کہ اٹھارہ مئی دو ہزار اٹھارہ کو امریکہ کے اس وقت کے صدر ٹرمپ کی جانب سے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے واشنگٹن کی یکطرفہ اور غیر قانونی علیحدگی کے اعلان کے بعد اس معاہدے کے یورپی فریق ملکوں کی جانب سے اس معاہدے کے تحفظ اور امریکہ کی علیحدگی سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کے لئے، کئے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کے فقدان سے اس معاہدے کی بحالی میں اور زیادہ مسائل و مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ جب امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو ایٹمی معاہدے کے دیگر فریق ملکوں نے ایران سے درخواست کی کہ وہ ٹرمپ کی مانند موقف اختیار نہ کرے اور اس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد پہنچنے والے نقصانات کا بھی وہ ازالہ کرنے پر تیار ہیں اس کے باوجود ایران نے ایک سال صبر کیا مگر انھوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اس لئے کہ ان کے وعدے جھوٹے تھے۔
جبکہ ایران، ہمیشہ ایٹمی معاہدے پر کاربند رہا ہے اور اس نے بعد میں بھی جو اقدامات انجام دیئے ہیں وہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے مطابق رہے ہیں۔
واضح رہے کہ تہران نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لئے اس بات کی شرط کا اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن کو اس معاہدے میں واپس آنے کے لئے تہران کے خلاف تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہو گا۔