بے عمل یورپ ایران کے مزید عمل پر مُصِر، اعلی سطح پر یورینیئم کی افزودگی روکنے کا مطالبہ دہرایا
جامع ایٹمی معاہدے کے تعلق سے بے عملی کا مظاہرہ کرنے والے تین یوروپی ملکوں نے ایران سے اعلی سطح پر یورینیئم کی افزودگی روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جوہری معاہدہ جے سی پی او اے میں شامل تین یوروپی ملکوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کے اجلاس میں مشترکہ بیان جاری کیا جس میں ان ملکوں نے ایران سے اعلی سطح پر یورینیئم کی افزدوگی فورا روکنے کا مطالبہ کیا۔
ان ملکوں نے اپنے بیان میں ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے خلاف اپنے بے بنیاد دعووں کی تکرار کی اور اس پروگرام کی پر امن ماہیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاس ایسی سرگرمیاں انجام دینے کی ٹھوس دلیل نہیں ہے کہ جسکے نتیجے میں اسکے پاس ایسا علم آئے جسے ایٹم بم بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، ایران میٹل یورینیئم کی افزودگی کا عمل فورا روکے۔
ایران نے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی گذشتہ میٹنگ کے بعد 20 فی صدی سے اوپر کی سطح والے یورینیئم کی افزودگی دوگنی کردی ہے۔
تینوں یوروپی ملکوں نے اپنے بیان میں ایران کے جوہری اقدامات کے گہری تشویش کا باعث ہونے کا دعوی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ بورڈ آف ڈائرکٹرز ایک زبان ہوکر ایران سے اعلی سطح کی یورینیئم کی افزودگی فورا روکنے کے لئے کہے گا۔
جوہری معاہدے کے یوروپی فریقوں کی اس معاہدے پر عمل میں بار بار کی کوتاہی کی وجہہ سے ایران نے اس معاہدے کی شق 26 اور 36 کے تحت اپنے وعدوں پر عمل در آمد کم کیا ہے۔ یوروپی فریقوں کے بیان میں آیا ہے کہ ایران میں پیشرفتہ سینٹریفیوج میں مسلسل بہتری، اس ملک کی یورینیئم کی افزودگی میں مسلسل پیشرفت کا سبب بن رہی ہے، ایران نے بڑے پیمانے پر پیشرفتہ سینٹریفیوج نصب کرنے کا اقدام کیا ہے، ہم ایران پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان اقدامات کو روکے۔
برطالیہ، فرانس اور جرمنی کے مشترکہ بیان میں آیا ہے، ہم تین یوروپی فریق پوری طرح جوہری معاہدے کے حامی ہیں، مذاکرات کے اس عمل پر کاربند ہیں جو ویانا میں جے سی پی اواے کے سبھی فریقوں اور امریکی نمائندے کی موجودگی میں شروع ہوا ہے، ہماری کوشش اس معاہدے میں امریکہ کو واپس لانے، ایران سے اس معاہدے کو پوری طرح لاگو کرانے اور اس معاہدے سے سبھی کے مفاد کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے، ہم ایران سے تاکید کرتے ہیں کہ وہ اس سفارتی موقع سے فائدہ اٹھائے۔
یاد رہے کہ ایران مئی دوہزار اٹھارہ میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے باوجود، دیگر فریقوں کی جانب سے عملدآمد کی شرط پر اس معاہدے کی یکطرفہ طور پر پابندی کرتا رہا، لیکن یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی غرض سے کیے جانے والے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا۔
ان حالات میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل نے، امریکہ کی علیحدگی کے پورے ایک سال بعد آٹھ مئی دوہزار انیس کو ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت، مذکورہ معاہدے سے مرحلہ وار پسپائی کا عمل شروع کیا تھا۔ ایران کے اس اقدام کا مقصد ایٹمی معاہدے میں درج تہران کے حقوق اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان توازن پیدا کرنا تھا۔
ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت ایران کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ مقابل فریق یا فریقوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں معاہدے پر جزوی یا مکمل عملدرآمد روک دے۔