آئی اے ای اے کے سربراہ کا کمزور موقف، ایران کی ایٹمی تنصیبات میں تخریب کاری کی بے جان مذمت، سائنسدانوں کے قتل پر خاموشی
آئی اے ای اے سربراہ رافائل گروسی نے کافی لیت لعل کے بعد انتہائی کمزور موقف اپناتے ہوئے آخرکار ایران کی ایٹمی تنصیبات میں تخریب کاری کی مذمت کی ہے تاہم ایرانی ایٹمی سائنسدانوں کے قتل پر مجرمانہ خاموشی برقرار رکھی ہے۔
عالمی جریدے انرجی انٹیلی جینس کو انٹرویو دیتے ہوئے آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل اور ایٹمی تنصیبات میں تخریب کاری کے واقعات کے بارے انتہائی کمزور موقف اپناتے ہوئے انتہائی تاخیر کے ساتھ، کہا ہے کہ ایٹمی تنصیبات کے خلاف کسی بھی قسم کا حملہ قابل مذمت فعل ہے۔
رافائل گروسی کا کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کی جنرل اسمبلی نے اس تعلق سے ماضی میں کئی قراردادیں پاس کی ہیں اور بقول ان کے ادارے کا موقف انتہائی شفاف اور واضح ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان قراردادوں کی رو سے ایٹمی تنصیبات پر کیا جانے والا ہر قسم کا حملہ قابل مذمت ہے۔
نطنز کی ایٹمی تنصیبات میں تخریب کاری کے بعد آئی اے ای اے میں ایران کے مستقبل مندوب کاظم غریب آبادی نے بتایا تھا کہ ایجنسی کے سربراہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس حملے کے بارے میں شفاف موقف اختیار کرتے ہوئے اس کی مذمت کریں۔
آئی اے ای اے کے منشور کے مطابق، یہ عالمی ادارہ ایٹمی تنصیبات کی نگرانی کے علاوہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ رکن ملکوں کی ایٹمی پیشرفت کی حفاظت اور ان کو پہچنے والے نقصانات پر قانونی پیروی کا پابندی ہے لیکن اس ادارے نے ایران کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آئی اے ای اے اور اس کے رکن ممالک نے نہ تو ایران کی ایٹمی تنصبات پر حملے کی اب تک مذمت کی ہے اور نہ ہی ایٹمی سائنسداں شہید فخری زادہ کے قتل پر کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے۔
آئی اے ای اے کے سربراہ نے اپنے انٹرویو کے ایک اور حصے میں ایران میں آئی اے ای اے کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ایران میں ہمارا کردار ناقابل اجتناب تھا اور رہے گا۔ گروسی نے ایران کی نیک نیتی کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر دعوی کیا کہ انہوں نے تہران کو کم سے کم نگرانی اور ایٹمی مراکز کی جانچ پڑتال کے عمل پر راضی کرنے کے لیے متعدد بار ایران کا دورہ اور عارضی اتفاق بھی حاصل کیا ہے تاکہ اگر ایٹمی معاہدہ بحال ہوتا ہے تو ایران کی ایٹمی تنصیبات میں انجام پانے والی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ہمارے پاس موجود ہوں۔
واضح رہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے غیر قانونی اور خود سرانہ انخلا کے ایک سال بعد تک اس معاہدے پر بھرپور طریقے سے عمل کیا تاکہ یورپی ممالک اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے واشنگٹن کی علیحدگی سے تہران کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرسکیں۔ ایٹمی معاہدے سے امریکی علیحدگی کے ایک سال گزرنے کے بعد ایران نے اعلان کیا تھا کہ چونکہ یورپی ملکوں نے اپنے وعدوں پر تاحال عمل نہیں کیا ہے لہذا ایران ایٹمی معاہدے سے مرحلہ وار پسپائی کا عمل شروع کر رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایران کے تمامتر اقدامات خود ایٹمی معاہدے کے مطابق رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے بارہا اعلان کر چکا ہے کہ تمام امریکی پابندیوں کے خاتمے اور یہ یقین حاصل ہوجانے کی صورت میں کہ پابندیاں واقعی ختم ہوگئی ہیں، تہران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کر دے گا۔